9جون 2025 (پیپلز ڈیلی آن لائن) چین نے 2000 عالمی جامعات کی درجہ بندی میں پہلی مرتبہ امریکا پر سبقت حاصل کر لی ہے۔ اب اس فہرست میں 17 فیصد چینی جامعات ہیں ۔ گزشتہ سال یہ تعداد 324 تھی جو بڑھ کر اس سال 346 ہو گئی ہے، جبکہ امریکی جامعات کی تعداد 329 سے کم ہو کر 319 ہو گئی ہے۔
سینٹر فار ورلڈ یونیورسٹی رینکنگز کی جانب سے 2025 کی جاری کردہ درجہ بندی میں بتایا گیا ہے کہ 98 فیصد چینی جامعات نے تحقیقی کارکردگی میں اضافے اور اعلیٰ تعلیم میں حکومت کی مستقل سرمایہ کاری کی بدولت اپنی درجہ بندی میں بہتری کی ہے ۔ حالانکہ دنیا کی 10 بہترین جامعات میں سے آٹھ اب بھی امریکی ہی ہیں تاہم 83 فیصد کی درجہ بندی میں کمی آئی ہے۔
شنہوا یونیورسٹی یونیورسٹی چھ درجے کی ترقی کے بعد اب 37 ویں نمبر پر ہے،پیکنگ یونیورسٹی تین درجے اضافے کے بعد 44 ویں نمبر پر، جبکہ چائنیز اکیڈمی آف سائنسز یونیورسٹی چار درجے اوپر آکر اب 46 ویں نمبر پر آ گئی ہے جب کہ شنگھائی جیاو ٹونگ یونیورسٹی 61 ویں نمبر پر اور جی جیانگ یونیورسٹی 68 ویں نمبر پر ہے۔
عالمی جامعات کی درجہ بندی کے مرکز کے صدر ندیم محاسن کا کہنا ہے کہ چین بہت عمدگی سے دنیا کی بہترین جامعات کی نمائندگی کر رہا ہے، جب چینی جامعات اپنی حکومت کی جانب سے سالہا سال سے ملنے والی فراخ دلانہ مالی مدد کا ثمر پا رہی ہیں، ایسے میں امریکی ادارے وفاقی فنڈنگ میں کمی ، تعلیمی آزادی اور آزادی اظہار کے تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔ ۔ ندیم محاسن کا کہنا ہے کہ کئی سالوں تک امریکی جامعات بین الاقوامی طلباء، خاص طور پر چینی طلبہ، کو کامیابی سے اپنی جانب متوجہ رکھتی رہی ہیں۔، لیکن چین کی درجہ بندی میں غیر معمولی ترقی اور حالیہ امریکی ویزا پالیسیز کے ساتھ، صورتحال جلد ہی بدل سکتی ہے۔
نیو چینل انٹرنیشنل ایجوکیشن گروپ کے سینئر نائب صدر ، لیو وی کے مطابق چین بین الاقوامی درجہ بندی کے مختلف نظاموں میں ترقی کر رہا ہے جن میں QS، ٹائمز ہائر ایجوکیشن، اور عالمی یونیورسٹیوں کی تعلیمی درجہ بندی شامل ہیں یہ عالمی تحقیق کے اثر میں مستقل بہتری کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ سخت ویزا پالیسیز نے امریکا میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں چینی طلباء کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے، جس کی وجہ سے بہت سے طلبا اس کا متبادل سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔
اس وقت برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، اور سنگاپور جیسے ممالک، اور کچھ یورپی ممالک نے خاص طور پر ان بین الاقوامی طلباء کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں جو امریکہ سے دل برداشتہ ہو رہے ہیں۔