• صفحہ اول>>کاروبار

    تجارتی تناؤ کے ماحول میں  چین عالمی ترقی کو استحکام  اور تحریک دینے والا  ملک ہے۔ اقوام متحدہ کے تجارتی اہلکار

    (پیپلز ڈیلی آن لائن)2025-06-07

    7 جون 2025 (پیپلز ڈیلی آن لائن ) عالمی معیشت کو شدید تغیرات کا سامنا ہے کیونکہ بڑھتا ہوا یکطرفہ پن کثیر الجہت تجارتی نظام کو چیلنج کر رہا ہے۔ دنیا کو ان چیلنجز کا جواب کیسے دینا چاہیے؟ چین کا کثیر الجہت تجارتی نظام کے تحفظ میں کیا کردار ہے؟ Tsinghua PBCSF ,2025عالمی مالیاتی فورم کے دوران گلوبل ٹائمز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں، UNCTAD میں انویسٹمنٹ اینڈ انٹرپرائز ڈویژن کے سینئر ڈائریکٹر اور اقوام متحدہ کے سسٹین ایبل اسٹاک ایکسچینجز انیشئیٹو کے صدر نان لی کولنز (لی)، نے عالی تجارتی صورت حال اور چین کے کردار کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

    رواں سال عالمی ترقی کی توقعات اور چیلنجز نیز چین اور ترقی پذیر ممالک کے کثیر الجہت تجارت میں کردار کے حوالے سے نان لی کولنز نے UNCTAD کی سیکرٹری جنرل ریبیکا گرینسپین کے حالیہ بیان کا حوالہ دیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ہم کم ترقی اور زیادہ قرض کے 'نیو نارمل' دور میں ہیں، جو صدر شی جن پنگ کے اس تجزیے سے ہم آہنگ ہے کہ دنیا شدید تبدیلیوں کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ UNCTAD نے عالمی طلب کی کمی، جغرافیائی تنازعات اور تجارتی جھگڑوں کی وجہ سے رواں سال کی عالمی اقتصادی ترقی کی پیش گوئی 2.3 فیصد تک کم کر دی ہے، جو عالمی معیشت کی سکڑنے کی نشاندہی کرتا ہے۔ نان لی کولنز نے کہا کہ موجودہ پالیسی کا مقصد کمزور عالمی معیشت میں لچک اور استحکام پیدا کرنا ہے۔ چین اور امریکا کے درمیان حالیہ جنیوا مذاکرات نے عالمی اعتماد کو بڑھایا ہے ، چین کثیر الجہت تجارتی نظام کا محافظ ہونے کے ناطے عالمی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا رہے گا۔ان کا کہنا تھا کہ موجودہ غیر مستحکم بین الاقوامی ماحول ترقی پذیر ممالک کے لیے سخت چیلنجز پیدا کر رہا ہے۔ ان ممالک کو اپنے وسائل کو مجتمع کر کے ترقی کی رفتار بڑھانے کی ضرورت ہے، جس کے لیے جنوب-جنوب تعاون اور شمال-جنوب مکالمے کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔

    چین-امریکاجنیوا مذاکرات میں ٹیرف میں باہمی کمی اور مواصلاتی طریقہ کار پر ہونے والےاتفاق کی عالمی تجارت میں اہمیت اور چین-امریکہ اقتصادی تعاون کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے نان لی کونز کا کہنا تھا کہ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے طور پر، چین اور امریکا کے درمیان مستحکم اور منظم اقتصادی و تجارتی روابط نیز عالمی سرمایہ کاری اور تجارت کے بہاؤ کے لیے ایک "بیرومیٹر" کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حالیہ اتفاق رائے نے بلا شبہ عالمی تجارت اور سرمایہ کاری کی مستحکم ترقی کو فروغ دیا ہے جو سرحد پار تجارت کے اخراجات میں کمی کرے گی اور دونوں ممالک کے کاروباروں کے لیے "مارکیٹ سپیس" کھلے گی۔

    ٹیرف میں باہمی کمی کے بارے میں ان کی رائے ہے کہ اس کے مثبت اثرات دوسرے ممالک پر بھی ہوں گے جس سے ، درمیانی مصنوعات کی تجارت پر انحصار کرنے والی ترقی پذیر معیشتوں کے لیے زیادہ مستحکم اور قابل اعتماد ماحول پیدا ہوگا اور عالمی سپلائی چینز کی لچک میں بھی اضافہ ہوگا۔

    مذاکرات میں چین-امریکا اقتصادی اور تجارتی مشاورت کے میکانزم کا قیام،فالو اپ ایکسچینج کا ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا پرامید ہے کہ دونوں بڑی معیشتیں کثیر الجہت تجارتی نظام کے اندر بات چیت اور تعاون کو مضبوط کریں گی اور بڑی طاقتوں کے طور پر اپنی ذمہ داریوں کو مشترکہ طور پر نبھاتے ہوئے عالمی معیشت میں مزید اعتماد اور استحکام فراہم کریں گی۔

    کثیرالجہتی نقطہ نظر سے تجارتی تعلقات کو نئی شکل دینے کےلیے امریکا کی جانب سے ٹیرف کا استعمال کتنا مؤثر رہے گا؟ اس کے حوالے سے نان لی کا کہنا تھا کہ آج کی عالمی معیشت میں جہاں گلوبل ویلیو چین شدید منقسم ہے ، معیشتیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں اور ایک بڑی معیشت کے اقدامات کا اثر دنیا پر پڑتا ہے ۔ایسے میں دو بڑی عالمی معیشتوں کی محصولات کی اس جنگ میں کم ترقی یافتہ ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوں گے ۔ان کی رائے میں چین اور امریکا کو تعاون کے امکانات تلاش کرنے چاہیں، تعاون کا دائرہ کار بڑھانا چاہیے، "زیرو سم گیمز " سے اجتناب برتنا چاہیے، اور دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک کے لیے مزید عوامی مصنوعات فراہم کرنی چاہئیں ۔

    نان لی کا کہنا ہے کہ گلوبل ویلیو چین کی دوبارہ تشکیل کے دوران، چین "فیکٹر اوپننگ-اپ " سے "انسٹیٹیوشنل اوپننگ-اپ " کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ ٹیرف میں کمی، کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے ڈیوٹی فری پالیسیز، غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے منفی فہرست میں کمی ، خدمات کے شعبے کھولنے کے لیے پائلٹ پروگرامز کو بڑھانا، ڈیجیٹل معیشت کی شراکت داری کے معاہدے میں شامل ہونے کے لیے درخواست دینا نیز جامع اور ترقی پسند ٹرانس پیسیفک شراکت داری کے معاہدے میں شامل ہونے کی کوششوں کے ذریعے چین نے پالیسی کی شفافیت کو نمایاں طور پر بہتر بنایا ہے اور اعلیٰ بین الاقوامی معیار کے قواعد کے ساتھ عملی طور پر ہم آہنگ ہوا ہے ۔

    چین کی پالیسیز کو سراہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب کچھ بڑی معیشتیں تحفظ پسندی کا انتخاب کر رہی ہیں، چین اپنی معیشت کو کھولنے کے لیے سرگرم ہے تاکہ دوسرے ممالک کو چین کی اقتصادی ترقی میں شرکت کے زیادہ وسیع مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ اس سے نا صرف عالمی اقتصادی تعاون کے لیے وسیع جگہ فراہم ہوتی ہے، بلکہ عالمی کاروباری اعتماد کی بحالی اور صنعتی و سپلائی چینز کو مستحکم کرنے کے لیے اہم عملی مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں۔

    دنیا کے سب سے بڑے ترقی پذیر ملک کے طور پر، چین گلوبل ساوتھ ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری کی شراکت داری کو مزید گہرا کرتا جا رہا ہے، ٹیکنالوجی کی طاقت، سبز تبدیلی، اور ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی میں شاندار ترقی کر رہا ہے، جبکہ جنوب-جنوب تعاون میں نئی رفتار پکڑ رہا ہے۔ UNCTAD کی آنے والی عالمی سرمایہ کاری رپورٹ 2025 کے تجزیے کے مطابق، عالمی FDI میں جنوب-جنوب سرمایہ کاری کا تناسب ڈیجیٹل معیشت کے شعبے میں بڑھتا جا رہا ہے اور اس کا سب سے اہم ذریعہ چین ہے۔

    نان لی کا ماننا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے ،چین کی مصنوعی ذہانت، سبز معیشت اور ڈیجیٹل معیشت کی ترقی نئے مواقع فراہم کرے گی۔ چین کی سرمایہ کاری ان ممالک میں ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے کی کمی کو پورا کرنے میں مدد دیتی ہے، جبکہ چینی ٹیکنالوجی سستے حل فراہم کرتی ہے۔ چین کا تجربہ ان ممالک کو ابھرتی ہوئی صنعتوں میں ترقی کے مواقع دیتا ہے۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ چین کی سرمایہ کاری گلوبل ساوتھ ممالک کے ساتھ ترقی پذیر ممالک کو فائدہ دے گی اور ایک مضبوط، جامع اور پائیدار عالمی اقتصادی نظام کی تعمیر کو فروغ دے گی۔

    ویڈیوز

    زبان