4 اپریل کو " ریسیپروکل ٹیرف" کےآرڈر پر ٹرمپ کے دستخط کے بعد، متعدد ممالک کی جانب سے جوابی اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے۔مقامی وقت کے مطابق 8 اپریل کو ، امریکی تجارتی نمائندے گریئر نے کہا کہ " ریسیپروکل ٹیرف" 9 اپریل سے نافذ العمل ہو جائے گا۔ اسی دن، کینیڈا کے وزیر خزانہ فو سوا فلپ شومپینینا نے اعلان کیا کہ امریکی گاڑیوں پر 25 فیصد مساوی ٹیرف کا اقدام مشرقی امریکی وقت کے مطابق 9 اپریل سے نافذ ہوگا۔
مقامی وقت کے مطابق8 اپریل کو ، امریکی اسٹاک مارکیٹ میں عارضی طور پر بحالی دیکھی گئی، جس کا آغاز اضافے کے ساتھ ہوا لیکن اختتام گراوٹ پر ہوا۔ ڈاؤ جونز انڈسٹریل اوسط 320.01 پوائنٹس کی کمی یعنی 0.84 فیصد گر کر بند ہوا ۔ اسٹینڈرڈ اینڈ پورز 500 انڈیکس میں 1.57 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی،جبکہ نیسڈیک کمپوزٹ انڈیکس میں 2.15 فیصد کی کمی دیکھی گئی ۔
مقامی وقت کے مطابق 8 اپریل کو، صحافیوں کے سوالات کے جواب میں، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اینتونیو گوریس نے اس بات پر دوبارہ زور دیا کہ تجارتی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ سب سے زیادہ کمزورترین ترقی پذیر ممالک کے بارے میں خاص طور پر فکر مند ہیں، کیونکہ ان پر اثرات زیادہ شدید ہوں گے۔
اسی دن، اسپین کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے ویتنام کے سرکاری دورے کے دوران کہا کہ ایک کثیر قطبی اور انتہائی مربوط دنیا کے تناظر میں، صدر ٹرمپ کی طرف سے شروع کی گئی تجارتی جنگ خاص طور پر امریکہ سمیت عالمی سطح پر بہت بڑا نقصان پہنچا رہی ہے۔
8 تاریخ کو، وینزویلا کے صدر نیکولس مدورو نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہا کہ "ٹیرف جنگ" امریکہ کی اپنی معیشت کو نقصان پہنچانے کا عمل ہے، اور امریکہ پوری دنیا پر پابندیاں عائد کر کے دوسرے ممالک کو جھکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔