حال ہی میں جاری کی گئی نیٹو کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین کی جوہری پالیسی نیٹو کے لیے ایک "منظم چیلنج" بن گئی ہے۔ 8 مئی کو چینی وزارت دفاع کے ترجمان چانگ شیاؤ گانگ نے اس حوالے سے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہےکہ نیٹو کی متعلقہ رپورٹ سرد جنگ کی ذہنیت سے بھرپور ہے اور نام نہاد "چین کے خطرے" کو غیر حقیقی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے۔ یہ حقائق کو مکمل طور پر نظر انداز کر رہی ہے اور اس نے ایک غلط ہدف طے کر لیا ہے۔ چین کا کسی کو چیلنج کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور نہ ہی اس نے کبھی کسی کو دھمکی دی ہے۔ چین کی جوہری پالیسی انتہائی مستحکم، مسلسل اور پیش گوئی کی حامل ہے۔چین نے ہمیشہ اپنے دفاع کی جوہری حکمت عملی پر عمل کیا ہے اور قومی سلامتی کے لئے ضروریات کی کم سے کم سطح پر اپنی جوہری قوت کو برقرار رکھا ہے.
ترجمان نے کہا کہ اس کے برعکس نیٹو نے حالیہ برسوں میں سرحدیں پار کی ہیں اور اپنی طاقت میں اضافہ کیا ہے،جس سے ایشیا و بحرالکاہل کے خطے میں علاقائی امن و استحکام کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ مزید برآں ، نیٹو کے کچھ رکن ممالک نے "نیوکلیئر شیئرنگ" معاہدے کے ذریعے اپنی اسٹریٹجک فورسز کو اپ گریڈ کرنے کے لئے بھاری رقم خرچ کی ہے ، اور وہ جوہری آبدوز تعاون کا بھی ارادہ رکھتے ہیں جس میں غیر جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک کو جوہری مواد کی فروخت بھی شامل ہے۔ یہ متعلقہ عمل جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی سنگین خلاف ورزی کرتا ہے، بین الاقوامی جوہری عدم پھیلاؤ کے نظام کو شدید طور پر کمزور کرتا ہے، اور عالمی تزویراتی سلامتی اور استحکام کو شدید نقصان پہنچاتا ہے.