تاریخ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں داخل ہوچکی ہے، دنیا ایک منظم تبدیلی سے گزر رہی ہے جو توقع سے کہیں زیادہ گہری ہے۔
سنہ 2017 کے آخر میں شی جن پھنگ نے پہلی بار یہ خیال ظاہر کیا کہ ' ہم دیکھ رہے ہیں دنیا میں بری تبدیلیاں رونما ہونے جا رہی ہیں، جو گذشتہ ایک صدی میں نظر نہیں آئیں ۔' انہوں نے اس بڑِ ی تبدیلی کی وضاحت کے لیے تین پہلووں سے "بے مثال" کے الفاظ کا استعمال کیا ۔
سب سے پہلا یہ کہ ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے ممالک اور ترقی پذیر ممالک کے احیاء کی رفتار بے مثال ہے ۔ دوسرا یہ ہے کہ سائنسی اور تکنیکی انقلاب سے پیدا ہونے والی صنعتی تبدیلی اور مقابلے کی شدت بے مثال ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ عالمی گورننس کے نظام اور بین الاقوامی صورتحال میں ہونے والی تبدیلیوں کے درمیان ناموافقت اور غیر مساوی کی حالت بے مثال ہے ۔
اس وقت دنیا ایک چوراہے پر کھڑی ہے، اس تناظر میں شی جن پھنگ نے چین کو ایک ایسے راستے پر لے گئے جو مغربی جدیدیت سے مختلف ہے، جس نے دنیا کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک نیا نمونہ فراہم کیا ہے: عالمی حکمرانی میں جیت جیت کی منطق کو ضم کرنا اور فائدہ مند تعاون کے ساتھ زیرو سم کے کھیل کو ختم کرنا۔
150 سے زائد ممالک اور 30 سے زائد بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ "بیلٹ اینڈ روڈ" کی مشترکہ تعمیر پر دستخط سے لے کر "انسانیت کے ہم نصیب معاشرے "کے تصور کو اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی دستاویزات میں کئی بار شامل کیا گیا ہے۔ چین کے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی دنیا کے لیے کھلے پن سے لے کر ڈیپ سیک کے عالمی اوپن سورس تک؛ شی جن پھنگ کے عالمی ترقی، سلامتی اور تہذیبی انیشی ایٹوز سے لے کر شنگھائی تعاون تنظیم، ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک، سلک روڈ فنڈ اور برکس ممالک کے نئے ترقیاتی بینک جیسے بین الاقوامی اداروں کی ترقی تک، چین نے بین الاقوامی سلامتی، معیشت اور تجارت، علاقائی تعاون اور عالمی امور کے شعبوں میں زیادہ سے زیادہ اہم کردار ادا کیاہے ۔ چین کی پیش کردہ تجویز "تہذیبوں کے تصادم" کے نظریے سے آگے بڑھنے کا امکان پیش کرتی ہے۔ علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری (آر سی ای پی)، جسے چین فعال طور پر فروغ دے رہا ہے، نے دنیا کا سب سے بڑا آزاد تجارتی علاقہ تعمیر کیا ہے۔ آئی ایم ایف کی پیش گوئی کے مطابق 2023 سے 2029 تک آر سی ای پی عالمی اقتصادی ترقی میں 40 فیصد سے زیادہ کا حصہ ڈالے گا۔
تاریخ کے چوراہے پر کھڑا چین ایک نئی قسم کے بین الاقوامی تعلقات کا معمار بن چکا ہے۔ چین کی طاقت نے دنیا میں تنازعات اور جنگ نہیں لائی ہے بلکہ تہذیب کی ایک نئی شکل متعارف کرائی ہے۔