• صفحہ اول>>سیاست

    IOMed عالمی انتظام و انصرام کو بہتر بنانے کے لیے جدت کے ذریعے بین الاقوامی قانون کی حکمرانی کو فروغ دیتا ہے

    (پیپلز ڈیلی آن لائن)2025-06-11
    IOMed عالمی انتظام و انصرام کو بہتر بنانے کے لیے جدت کے ذریعے بین الاقوامی قانون کی حکمرانی کو فروغ دیتا ہے

    30 مئی کو ہانگ کانگ میں بین الاقوامی ثالثی تنظیم (IOMed) کے قیام کے معاہدے پر دستخط کی تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب میں ایشیا، افریقا، لاطینی امریکا اور یورپ کے 85 ممالک کے اعلیٰ سطحی نمائندگان اور تقریباً 20 بین الاقوامی تنظیموں نے شرکت کی۔ IOMed کے بانی اراکین میں وہ 33 ممالک شامل ہیں جنہوں نے موقع پر ہی معاہدے پر دستخط کیے ۔

    بین الاقوامی ثالثی تنظیم کا قیام بین الاقوامی قانون کی حکمرانی میں ایک جدید اقدام ،جب کہ گلوبل ساوتھ کی اصلاحات کے لیے بے حداہم اقدام ہے۔ اس تنظیم کا قیام اقوام متحدہ کے منشور کے مقاصد اور اصولوں کی عملی شکل ہے جس کی بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ میں بے حد اہمیت ہے نیز یہ عالمی ترقی میں چینی دانش اور حل فراہم کرنے کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔

    یہ تنظیم ،ریاستوں کے درمیان، ریاستوں اور دیگر ممالک کے سرمایہ کاروں کے درمیان اور بین الاقوامی تجارتی تنازعات میں ،تمام فریقین کی رضا مندی سے ثالثی کرکے ادارہ جاتی خلا کو پُر کرتی ہے ۔ بین الاقوامی ثالثی تنظیم بڑے قانونی نظاموں کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، متعلقہ فریقوں کی خودمختاری کا احترام کرتی ہے اور زیادہ لچکدار، کم لاگت ، آسان اور موثر ہے۔ دنیا اس وقت شورش اور تبدیلی کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے، ایسے میں تنازعات کے بروقت اور موثر حل نیز طویل مدتی تعاون پر مبنی تعلقات کے تحفظ کی ضرورت میں اضافہ ہو رہاہے ۔ بین الاقوامی ثالثی تنظیم کے قیام کی تجویز کو بھرپور بین الاقوامی حمایت اور مثبت ردعمل ملا ہے، جو بین الاقوامی سطح پر امن کو فروغ دینے اور تنازعات کے حل کے لیے چین کے مستقل عزم کی عکاسی کرتا ہے۔

    چین نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان مفاہمت کی سہولت فراہم کرنے سے لے کر فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت کی بات چیت کو فروغ دینے، بیجنگ اعلامیہ پر دستخط کرنے ، فلسطینی قومی اتحاد کو مضبوط کرنے ، یوکرین کے بحران، فلسطین-اسرائیل تنازع نیز جزیرہ نما کوریا اور میانمار سے متعلق مسائل کے سیاسی حل کو فروغ دینے تک ہر معاملے میں ایک مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا ہے ۔ چین کا موقف ہے کہ اختلافات کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کیا جانا چاہیے ، چین بات چیت ، مشاورت، اور جیت-جیت تعاون کے ذریعے ترقی کا حامی ہے۔ دنیا کی تمام تہذیبوں نے تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے اور اختلافات میں ثالثی کے اصول اپنائے ہیں۔ چینی تہذیب میں بھی ہم آہنگی کی قدریں بہت مضبوط ہیں اور چین عرصہ دراز سے پرامن بقائے باہمی کی وکالت کرتاآیا ہے۔ اس کی قانونی روایات تنازعات کے صلح پسندانہ اور غیر متشدد حل پر استوار ہیں ، جو جدید بین الاقوامی قوانین کے اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔

    بین الاقوامی ثالثی تنظیم ، فیصلوں کو لاگو نہیں کرتی ہے بلکہ یہ فریقین کے لیے ایک غیر جانبدار پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے تاکہ فریقین ازخود مذاکرات کر سکیں۔ اس میں رضاکارانہ شرکت، مساوی فیصلہ سازی، اور باہمی فائدے کے اصولوں کی پاسداری کی جاتی ہے، تمام فریقین کے جائز تحفظات کا احترام کیا جاتا ہے، اور جیت-جیت کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آگے چل کر ،بین الاقوامی ثالثی تنظیم کا قیام "تم ہارے ، میں جیتا "اور زیرو سم گیم کی ذہنیت ختم کر کے آگے بڑھنے، خوش اسلوبی سے بین الاقوامی تنازعات کے حل اور مزید ہم آہنگ بین الاقوامی تعلقات کو فروغ دینے میں مدد گار ہوگا ۔

    بین الاقوامی تعلقات میں جیسے جیسے کثیر قطبی دنیا اور وسیع تر جمہوریت کا رجحان بڑھ رہا ہے، ویسے ہی بین الاقوامی سیاست میں گلوبل ساؤتھ امن قائم رکھنے، ترقی کو فروغ دینے اور عالمی حکمرانی کو بہتر بنانے میں "خاموش اکثریت" کے طور پر ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ گلوبل ساؤتھ کے ممالک نے IOMed کے قیام میں بھرپور شرکت کی ہےاور اسے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ رہتے ہوئے باہمی اعتماد، انصاف پسندی ، اور باہمی احترام کا عکاس تسلیم کیا ہے۔ بین الاقوامی ثالثی تنظیم کو کثیرالجہتی کو مضبوط کرنے کے لیے ایک مؤثر اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔مستقبل میں ، تنظیم قانون کی حکمرانی کی حقیقی روح کو برقرار رکھے گی، منصفانہ طریقہ کار اور بنیادی انصاف کے درمیان توازن قائم کرے گی، ترقی پذیر ممالک کی شرکت کو بڑھائے گی ، اور بین الاقوامی تنازعات کے تصفیے کے طریقہ کار کو زیادہ مساویانہ اور جامع بنانے کی طرف جائے گی، اس طرح عالمی انتظام و انصرام میں گلوبل ساؤتھ کی نمائندگی اور آواز میں اضافہ ہوگا۔

    آنے والے وقت میں ، جب تک تمام فریقین ثالثی کا بہتر استعمال کرتے ہیں اور تنازعات کو باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرتے ہیں، وہ تنازعات کو تعاون میں اور تصادم کو مکالمے میں بدل سکتے ہیں، اور بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کے حامل معاشرے کی تشکیل کے راستے پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔

    زبان