شمال مغربی چین کے سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے کی ہیشو کاؤنٹی کے تھور زدہ کھیتوں میں گندم کی کٹائی کرتا کسان ۔ (شین ہوا/گاؤ ہان)
25 جولائی2025 (پیپلز ڈیلی آن لائن)شمال مغربی چین کے سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے میں ایک تہائی سے زیادہ قابل کاشت زمین، مختلف سطح کےسیم و تھور کے باعث ، فصلوں کی کم پیداوار اور شدید صورتوں میں مکمل طور پر بنجر ہو جاتی ہے۔ پورے علاقے میں، ایسی زمین کو دوبارہ قابل کاشت بنانے کے لیے مختلف تکنیکی طریقے اپنائے جا رہے ہیں، جس سے زرعی پیداوار اور کسانوں کی آمدنی دونوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
سنکیانگ پروڈکشن اینڈکنسٹرکشن کور کی تیسری ڈویژن کے 49 ویں ریجنٹ کی 18 ویں کمپنی کے کھجور کے باغات میں اب پھلوں سے لدے ہوئے درخت نظر آتے ہیں لیکن صرف تین سال پہلے یہ لہلہاتا باغ ، شدید کھاری مٹی کے باعث بے حد کم پیداوار دیتاتھا۔
کمپنی کے پارٹی چیف سو یانگ پنگ بتاتے ہیں کہ پہلے بہت زیادہ آب پاشی کے باعث سطح پر موجود نمک، کھجور کے درختوں کی جڑوں تک پہنچ گیا جس سے ان کی مناسب نشوونما متاثر ہوئی۔2023 میں، چینی انجینئرنگ اکیڈمی کے ایک ماہر ینفی ہو کی قیادت میں ایک ٹیم نے اس علاقے میں سرخ کھجور کی ریسرچ بیس قائم کی۔ 2024 میں انہوں نے 330مو (22 ہیکٹر) پر پھیلے کھجور کے باغات کی تھور زدہ زمین سے کھارے پانی سے نمک کے اخراج ، عمودی کنوؤں کے ذریعےنمک کے اخراج اور زیر زمین ڈرپ آبپاشی جیسی ٹیکنالوجیز کا استعمال شروع کیا۔
ینفی ہو کے مطابق یہ علاقہ صحرائے تکلامکان کے مغربی کنارے پر واقع ہے، جہاں زمین کے نیچے کھارے پانی کے وافر ذخائر ہیں۔ نمک کی نکاسی کے کنوؤں سے کھارے پانی کو پمپ کرنے کے لیے ایک فوٹو وولٹک پاور سسٹم استعمال کیا جاتا ہے اور بیک وقت کھارے پانی کی صفائی اور مٹی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے آلات لگائے جاتے ہیں۔ ان نئی ٹیکنالوجیز کے شاندار نتائج سامنے آئے ہیں۔ پہلے سال میں ہی، کھجور کی پیداوار فی مو 50 کلوگرام بڑھ گئی اور بہتر معیار کے باعث ہمسایہ علاقوں کی نسبت ، قیمت میں 0.2 یوان (تقریباً 0.03 ڈالر) فی کلوگرام اضافہ ہوا۔ کمپنی کے پارٹی چیف سو یانگ پنگ کا کہنا ہے کہ تھور زدہ زمین، زرخیز مٹی میں تبدیل ہو گئی ہے اور اس سے خوشحالی آئی ہے۔ مزید یہ کہ جب 18ویں کمپنی کے کھجور کے 4,000 مو کے باغات میں بہتری ہو گی تو آمدنی میں بھی نمایاں اضافہ ہوگا۔
چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے زیر انتظام سنکیانگ انسٹی ٹیوٹ آف ایکولوجی اینڈ جیوگرافی کے محقق تیان چانگ یان اور ان کی ٹیم نے ہالوفائٹ پودوں یعنی تھور زدہ زمین میں اگنے والے پودوں کا باغ لگا کر کرامائی شہر میں ایک اور شاندار مثال قائم کی ہے۔ 2000 میں تیان چیانگ نے اس کا آغاز کیا ، اپنی ٹیم کے ساتھ تین سال کے دوران انہوں نے تقریباً ہر تھور زدہ علاقے کا سروے کیا اورتھور زدہ زمین میں اگنے والے پودوں کی 320 اقسام دریافت کیں۔ یہ پودے مٹی سے نمک جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ انہوں نےان پودوں کے دو باغات لگائے جن میں ہالوفائٹ پودوں کی 150 سے زائد اقسام متعارف کروائی گئیں۔
شمال مغربی چین کے سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے میں اگا ہوا سوئیڈا سالسا ،ایک ایسا پودا جو مٹی میں نمک کی مقدار کو کم کر سکتا ہے۔ (تصویر/تیان چھانگ یان)
تیان چانگ یان نے تجرباتی کاشت کے لیے ہالوفائٹس کی تمام اقسام میں سے،سوئیڈا سالسا کا انتخاب کیا۔ اس نوع کا پودا انتہائی کھارے پن کو برداشت کرنے اور زیادہ پیداوار دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔انہوں نے دیکھا کہ وہ تھور زدہ زمین جہاں پر دوسری فصلیں نہیں اگتیں، سوئیڈا سالسا کے ہر ایک مو سے 1.8 ٹن خشک گھاس حاصل کی جا سکتی ہے جبکہ 400 کلوگرام سے زیادہ نمک کشید کیا جا سکتا ہے۔ تیان چانگ بتاتے ہیں کہ پہلے سال کے بعد، مٹی کے نمکیات میں 40 فیصد کمی آئی، دوسرے سال یہ 60 فیصد سے زیادہ ہو گئی اور تیسرے سال تک 85 سے 90 فیصد تک پہنچ گئی تھور زدہ زمین کو عام فصلوں کے لیے موزوں بنا دیا۔ سوئیڈا سالسا کی معاشی قدر کا حامل بھی ہے اور ناقابلِ استعمال زمین کو سرسبز بنانے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔
کامیاب تجربات کے بعد، تیان نے ہوتان کاؤنٹی اور چنگ ہی کاؤنٹی جیسے علاقوں میں تھور زدہ زمینوں کی بہتری کے طریقے کو فروغ دیا۔ ڈرپ آبپاشی کے ذریعے تین سال تک سوئیڈا سالسا کی کاشت نے مٹی کو کھارے پن سے نجات دلانے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد مٹی کی زرخیزی کے لیے پھلیوں کی فصل لگائی گئیںاور پھر کپاس کی کاشت نے پیداوار کو عام زمین کی سطح تک پہنچا دیا۔اس وقت، سوئیڈا سالسا کی کاشت کو سنکیانگ کے مختلف اضلاع، علاقوں اور رجمنٹ فارمز میں فروغ دیا جا رہا ہے۔
چین کی " مرکزی دستاویز نمبر 1 " میں 2023کے لیے ، فصلوں کو تھور زدہ زمین کے مطابق ڈھالنے سے لے کر زمین کا تھور برداشت کرنے والے پودوں کے انتخاب اور ان کی افزائش کی طرف منتقل ہونے پر زور دیا گیا ہے ، جبکہ تھور والی زمین سمیت زرعی ذخائر کی جامع ترقی اور ان کے استعمال کے حوالے سے تجربات کیے جا رہے ہیں۔سنکیانگ اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز میں مٹی، کھاد اور زرعی پانی کی بچت کے تحقیقی ادارے کے ڈائریکٹر شو وان لی کہتے ہیں کہ ہم اس میدان میں 20 سال سے زیادہ کام کر چکے ہیں اور اپنے طریقہ کار کو مسلسل تبدیل کر رہے ہیں، تھور زدہ زمین کے ساتھ 'پرامن بقائے باہمی' کے طریقے تلاش کر رہے ہیں اور ان زمینوں میں پھلنے پھولنے والی فصلوں کا انتخاب نیز ان کی افزائش کر رہے ہیں۔
اسی اکیڈمی کے نقد آور فصلوں کے تحقیقی ادارے کی تیل کی فصلوں پر کام کرنے والی ٹیم نے معتدل سے شدید تھور زدہ صورتِ حال برداشت کرنے والی خزاں میں بوئی جانے والی ریپسیڈ کی اقسام متعارف کروائیں ۔ گزشتہ سال چانگ جی ہوئی خود اختیار علاقے کی کاؤنٹی چیتائی کے جی بوکو ٹاون میں ان اقسام نے کامیابی کے ساتھ فی مو، 157.9 کلوگرام کی پیداوار دی۔
2023 میں، ہوتان کی لوپو کاؤنٹی کے ایک گاؤں نے کھاری مٹی والی زمین میں چاول کاشت کیے۔ سائنسی طریقہ کار اپنانے کی بدولت اس زمین سے فی مو ، 550 کلوگرام پیداوار حاصل ہوئی۔ اس سال، گاؤں نے چاول کی اسی قسم کی کاشت کو 400 مو تک بڑھا دیا ہے۔
آج، تھور زدہ زمین نہ صرف فصلوں کے لیے موافق ہو گئی ہے بلکہ آبی زراعت کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ سنکیانگ کے محکمہِ زراعت و دیہی امور کے ایک اہلکار چانگ منگ یی کے مطابق ، جنوبی علاقوں مثلاً ہوتان اور کاشغر میں آبی زراعت کے لیے کھارے پانی کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔
14ویں رجمنٹ کے تحت الر شہر میں ، سنکیانگ پروڈکشن اور کنسٹرکشن کور کے پہلے ڈویژن کے تحت ایک تھور زدہ زمین پر آبی زراعت کا مرکز (تصویر بشکریہ ، میڈیا کنورجنس سینٹر الر سٹی )
صحرائے تکلامکان کے کنارے، کچھ مقامات اب غیر استعمال شدہ کھارے پانی کو آبی زراعت کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور انہیں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ یہ جدت نہ صرف دور افتادہ علاقوں میں سمندری خوراک تک رسائی کے مسئلے کو حل کرتی ہے بلکہ نمایاں معاشی فوائد بھی فراہم کرتی ہے۔