بین الاقوامی شخصیات شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے آغاز کی منتظر ہیں۔ پولینڈ کے سابق نائب وزیر اعظم اور وزیر معیشت جانس پیچوچنسکی کا ماننا ہے کہ چینی صدر شی جن پھنگ کے خیالات اور انیشی ایٹوز امن، دوستی اور تعاون کی وکالت کرتے ہیں، جو نہ صرف ایس سی او سمٹ کے لیے اہم ہیں بلکہ ایک نئی قسم کے بین الاقوامی اور سفارتی تعلقات کی تعمیر میں بھی اہم عنصر ہیں۔ کینیا میں ساؤتھ ساؤتھ ڈائیلاگ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسٹیفن نڈیگوا نے کہا کہ کینیا کو سلامتی کے شعبے میں درپیش انتہا پسندانہ خطرات اور اقتصادی میدان میں زرعی ترقی کی رکاوٹوں کا حل چین کے انیشی ایٹوز سے مل سکتا ہے۔ قازقستان کی ایسوسی ایشن آف چائنیز ریسرچرز کے چیئرمین کازبیک میگوردینوف نے کہا کہ جب تک ہم "شنگھائی اسپرٹ" پر عمل کرتے رہیں گے، شنگھائی تعاون تنظیم شاندار کامیابیاں حاصل کرے گی۔
متعدد ممالک کی شخصیات کی توقع ہے کہ تھیان جن سربراہی اجلاس کے ذریعے شنگھائی تعاون تنظیم زیادہ یکجہتی، تعاون، قوت محرکہ اور اعلیٰ معیار کی ترقی پر مبنی نئے مرحلے میں داخل ہوگی۔ ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز کے ڈین الیکسی مسلوف کا ماننا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم آہستہ آہستہ ایک بین العلاقائی بین الاقوامی تنظیم کے طور پر ابھر رہی ہے، جو لچکدار اور موثر مشاورتی میکانزم کے ذریعے معاملات پر تبادلہ خیال کرتی ہے۔ سربیا کے سابق نائب وزیر اعظم الیگزینڈر وولین نے اس امید کا اظہار کیا کہ "شنگھائی اسپرٹ" کی رہنمائی میں کثیر قطبی دنیا امن کے لئے لوگوں کی توقعات کو صحیح معنوں میں عملی جامہ پہنچائےگی۔ سینیئر جرمن میڈیا شخصیت فیلکس کرز کا خیال ہے کہ ممالک کے لیے یہ اہم ہے کہ وہ متحد ہو کر ایک مشترکہ آواز بلند کریں۔ توقع ہے کہ اس سمٹ کے ذریعے ہم بہتر طور پر مشترکہ خوشحالی حاصل کرسکتے ہیں۔