• صفحہ اول>>تبصرہ

    شنگھائی تعاون تنظیم کا تھیانجن سربراہی اجلاس، غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ یانگ روئی

    (پیپلز ڈیلی آن لائن)2025-09-03

    (یانگ روئی اسکول آف فارن لینگویجز اینڈ کلچرز، کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائنہ میں استاد اور انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اینڈ کنٹری کمیونیکیشن میں پاکستان ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں۔)

    3 ستمبر 2025 (پیپلز ڈیلی آن لائن)شنگھائی تعاون تنظیم 2025 کا سربراہی اجلاس 31اگست سے 1 ستمبر تک تھیانجن میں منعقد ہوا ،جس میں 20 سے زائد سربراہان مملکت اور 10 بین الاقوامی تنظیموں کے سربراہان نے شرکت کی ۔ اپنی وسعت میں منفرد ،تھیانجن سمٹ , شنگھائی تعاون تنظیم کو ایک نئے ،زیادہ متحد، تعاون پر مبنی، متحرک، اور فعال مرحلے میں منتقل کرنے میں مدد گار ہوگی ۔

    ایس سی او نے ماضی میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اس کی سیاسی اہمیت بڑھ رہی ہے۔ایک طرف تو یہ باہمی اعتماد، فائدے، مساوات، مشاورت، ثقافتی احترام اور مشترکہ ترقی کی 'شنگھائی سپرٹ ' کو برقرار رکھتی ہے، جو اس کی طاقت کا ذریعہ ہے۔ اس جذبے کی رہنمائی میں، ایس سی او رکن ممالک کو تجاویز، اتفاق رائے اور تعاون کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ جیسے جیسے تعاون کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے، مزید ممالک ایس سی او میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ توسیع کے کئی مراحل کے بعد، ایس سی او کی رکنیت 10 مکمل اراکین، دو مبصر ریاستوں (افغانستان اور منگولیا) اور 14 مذاکراتی شراکت داروں (آذربائیجان اور آرمینیا) تک پہنچ گئی ہے۔

    دوسری جانب ،رکن ممالک کے درمیان عملی تعاون تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ 'شنگھائی سپرٹ ' کو اپناتے ہوئے، رکن ممالک ،سکیورٹی اور اقتصادی تعاون کے 'ڈوئیل انجن' ماڈل سے صحت، سکیورٹی، ترقی اور ثقافت کی 'چار کمیونٹیز' کے فریم ورک کی طرف منتقل ہو گئے ہیں، جس کا مقصد 'پانچ مشترکہ گھروں' کا قیام ہے۔ تعاون کا دائرہ بڑھ رہا ہے، جس کے واضح نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ اقتصادی اور تجارتی تعاون ایس سی او کے لیے اہم ترقیاتی محرک بن گیا ہے، جس کی کل بیرونی تجارت 2024 تک 8 ٹریلین ڈالر سے متجاوز ہونے کی توقع ہے، جو عالمی تجارت کا ایک چوتھائی ہے اور اس کے آغاز کے 100 گنا سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔

    مستقبل کی جانب دیکھیں تو شنگھائی تعاون تنظیم کے امکانات روشن نظر آتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ ایس سی ا و کثیر الجہت آزاد تجارتی فریم ورک کو مضبوط کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس میں کئی ابھرتی ہوئی معیشتیں شامل ہیں جو مغربی تسلط والے بین الاقوامی نظام کی طرف سے عائد کردہ دباؤ اور عدم مساوات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک جیسا نقطہ نظر رکھتی ہیں، خاص طور پر عالمی معیشت کے میدان میں، جہاں عالمی اقتصادی حکمرانی میں بات چیت کے اثرات کے حوالے سے ساختی تضادات موجود ہیں۔ یہ واضح ہے کہ کوئی بھی واحد ادارہ موجودہ بین الاقوامی اقتصادی نظام کو مؤثر طریقے سے چیلنج نہیں کر سکتا؛ اس لیے، اپنی اجتماعی آواز کو بڑھانے، قومی مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے، خاص طور پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی تجارتی تنظیم جیسے کثیر الجہت اقتصادی اور مالیاتی اداروں کی اصلاحات کو فروغ دے کر باہمی فائدے کے لیے تعاون ضروری ہے ۔

    امریکا کی ٹیرف وار میں کوئی فاتح نہیں ، لیکن ایس سی او کے رکن ممالک کو ٹیرف جنگوں اور امریکا کے دباؤ سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ انہیں اپنی اندرونی طاقت بڑھانے اور اقتصادی لچک مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ باہمی فائدے کے مواقع تلاش کرنے چاہئیں۔ وہ اقتصادی تعاون کو گہرا کر سکتے ہیں، امریکی ٹیرف کے یکطرفہ اقدامات کی مخالفت کر سکتے ہیں، کثیرالجہتی کی اہمیت پر زور دے سکتے ہیں اور تعاون کے ذریعے محصولات کے اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔

    دوسرا، ہمیں بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ جنرل سکریٹری شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ چین نے ہمیشہ شنگھائی تعاون تنظیم کو اپنی ہمسائیگی کی سفارت کاری میں ترجیح دی ہے اور وہ شنگھائی تعاون تنظیم کو مضبوط بنانے، علاقائی سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے، اس کے رکن ممالک کی ترقی اور خوشحالی کو فروغ دینے اور مشترکہ مستقبل کے ساتھ قریبی برادری کی تعمیر کے لیے پرعزم ہیں۔

    ایس سی او میں بے حد صلاحیت ہے کہ وہ غالب ہونے والے اقدامات کی مخالفت کرسکے اور ایک منصفانہ کثیر قطبی دنیا کے فروغ ، شمولیتی اقتصادی عالمگیریت کی حمایت اور عالمی جنوبی ممالک کو ایک زیادہ منصفانہ عالمی حکمرانی کے نظام کے لیے متحد کرتے ہوئے بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے تشکیل دینے کے لیے کام کرے۔

    ویڈیوز

    زبان