29اکتوبر (پیپلز ڈیلی آن لائن)رواں سال تائیوان کی جاپانی تسلط سے آزادی کی 80 ویں سالگرہ ہے۔ 25 اکتوبر 1945 کو، تائی پے کے جونگ شان ہال میں، چینی حکومت کے نمائندے نے اعلان کیا کہ تائیوان اورجزائر پھنگ ہو باضابطہ طور پر چین کے حوالے کر دیے گئے ہیں اور تمام زمین، لوگ اور انتظامیہ چینی خودمختاری میں آ گئے ہیں۔ یہ نصف صدی پر محیط جاپانی نوآبادیاتی قبضے کے خاتمے کی علامت اور جزیرے کی مادر وطن کی آغوش میں واپسی کا تاریخی موقع تھا جو صرف "علاقے کی واپسی " تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ یہ ایک صدی کی غیر ملکی جارحیت کے بعد چینی قوم کی حیات نو کی علامت تھا۔
افیون کی جنگ کے آغاز کے بعد سے ، چین نے بار ہا دخل اندازیوں اور نقصانات کا سامنا کیا۔ 1895 میں پہلی چین-جاپان جنگ کے بعد تائیوان اور پھنگ ہو جزائر پر قبضے نے قوم کی اجتماعی یادداشت پر ایک گہرا اور ناقبلِ فراموش نشان ثبت کیا تھا اور 1945 میں ان کی واپسی نے نہ صرف شیمونوسیکی معاہدے کی ذلت کو مٹا دیا بلکہ یہ قومی وقار کی بحالی کی طرف ایک اہم قدم بھی تھا۔
تائیوان کی واپسی، چینی عوام کی قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کے لیے کی جانے والی مستقل جدوجہد کا نتیجہ تھی۔تاریخی طور پر تائیوان، چینی سرزمین کا ایک ناقابل تنسیخ حصہ رہا ہے۔ 1895 میں، جاپانی حکومت نے شکست خوردہ چنگ حکومت کو تائیوان اور پھنگ ہو ان کے حوالے کرنے پر مجبور کیا اور چین کے یہ علاقے نصف صدی تک سامراجی حکمرانی کے ماتحت رہے جس کے نتیجے میں چین کا جنوب مشرقی بحری دفاع متاثرہوا۔ تائیوان کی واپسی سے اس تاریخی ناانصافی کو درست کیا گیا اور چین کی علاقائی خودمختاری کو اس کی صحیح حالت میں بحال کیا گیا۔
یہاں یہ بھی ایک اہم تاریخی حقیقت ہے کہ طویل قبضے کے باوجود، آبنائے کے دونوں جانب کے عوام کے درمیان تعلقات قائم رہے۔ جاپانی جارحیت کے خلاف چینی عوام کی مزاحمتی جنگ کے دوران، 50,000 سے زائد وطن پرست تائیوانی ، آبنائے کو عبور کر کے چینی سرزمین پر پہنچے اور اپنے ہم وطنوں کے ساتھ مل کر حملہ آوروں کے خلاف لڑے ۔ اس مشترکہ جدوجہد میں قائم ہونے والی یکجہتی نے قومی دفاع اور جنگ کے بعد کی تعمیر نو کو ایک بھرپور اجتماعی قوت فراہم کی۔
عالمی نقطہ نظر سے، فسطائیت مخالف عالمی جنگ میں فتح کا ایک اہم نتیجہ ،تائیوان کی واپسی کا تھا اور بعد از جنگ یہ بین الاقوامی نظام کا ایک لازمی حصہ تھا۔ یہ واپسی ،بین الاقوامی فسطائیت مخالف متحدہ محاذ کی فتح کی علامت تھی اور اس نے چین کے مشرقی میدان جنگ کے اہم کردار کو تسلیم کروایا جہاں چین نے 14 سال تک جنگ لڑی اور انسانیت نیز عالمی امن کے دفاع میں بے مثال قربانیاں دیں۔ تائیوان کی چین میں واپسی کے لیے اس کے اتحادیوں کی حمایت نے اس بات کی عکاسی کی کہ یہ فسطائیت مخالف اتحاد کی مشترکہ خواہش تھی ۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد بین الاقوامی نظام نے باضابطہ طور پر اس کی بحالی کا حکم دیا۔ بین الاقوامی قانون کے تحت قانونی طاقت کے حامل قاہرہ اعلامیے اور پوٹسڈم اعلامیے جیسی دستاویزات نے واضح طور پر تائیوان کی چین میں واپسی کا مطالبہ کیا۔ ان دستاویزات میں درج اصول بعد میں اقوام متحدہ کے قیام کے ذریعے باضابطہ حیثیت اختیار کر گئے، جو " مساوی خود مختاری " اور "داخلی امور میں عدم مداخلت" کے بنیادی تصورات پر مبنی تھی۔ تائیوان کی بحالی ان اصولوں اور بعد از جنگ اتفاق رائے کی ایک واضح مثال تھی اور اس نے بین الاقوامی سطح پر نوآبادیاتی حکمرانی کی غیر قانونی حیثیت کی بھی تصدیق کی۔ مذکورہ دونوں اعلامیے اور جاپان کے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز ، مل کر بین الاقوامی قانون میں ایک مکمل قانونی فریم ورک تشکیل دیتے ہیں جو اس بات کو واضح کرتا ہے کہ جارحیت کے ذریعے قبضے میں لیے گئے علاقے ، حقیقی مالکان کو واپس کیے جانے چاہئیں۔ یہ "جس کی لاٹھی اس کی بھینس " کی سامراجی منطق سےقطع تعلقی کی علامت ہے اور اس سے جنگ کے بعد دنیا میں علاقائی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک نئے اصول کو قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
آج، جب دنیا تبدیلیوں کے ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے کہ جو اس صدی میں اب سے پہلے نہیں دیکھی گئی ہیں اور آبنائے تائیوان کے پار کی صورتحال مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے ایسے میں تائیوان کی جاپانی تسلط سے آزادی کے 80 سال مکمل ہونے کی خوشی منانا عملی طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ اس واقعے کی تاریخی اہمیت کو تسلیم کرنا ضروری ہے جو چینی قوم کی نشاۃ ثانیہ کے احیا کے عمل کا ایک حصہ ہے اور جس کے جنگ کے بعد بین الاقوامی نظام پر دیرپا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ایک طرف جہاں یادگاری دن منانا ، آبنائے تائیوان کے پار مشترکہ تاریخی یادوں کو زندہ رکھنے میں مدد دیتے ہیں ، قومی اتحاد کو مضبوط کرتے ہیں اور چین کی نشاۃ ثانیہ کے احیا کے اجتماعی طاقت کو مستحکم کرتے ہیں۔ دوسری طرف، اس سے تاریخی حقائق کی تصدیق ہوتی ہے اور امریکا-تائیوان کی سازش کے ذریعے بنائی گئی 'تائیوان کی غیر متعین حیثیت' کی جھوٹی کہانی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
چینی قوم کے لیے، تائیوان کی بحالی 'تائیوان کی آزادی' کے علیحدگی پسند مفروضوں کے خلاف ایک غیر مشروط تاریخی ثبوت ہے۔ ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی (ڈی پی پی) کے حکام کی جانب سے نصاب میں تحریف، جاپانی نوآبادیاتی حکمرانی کی تعریف اور 'چینی ثقافت سے علیحدگی' کی ترویج تاریخی حقائق سے دانستاً انحراف کی نشاندہی کرتی ہیں۔
بین الاقوامی برادری کے لیے، تائیوان کی مادرِ وطن میں واپسی 'غیر متعین حیثیت' کی کہانی کی مضحکہ خیزی کو عیاں کرتی ہے۔1945 میں تائیوان کا چین میں واپس آنا ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو چیلنج کرنے کی کوئی بھی کوشش نہ صرف دوسری جنگ عظیم کی فتح کو رد کرنے کے برابر ہے بلکہ جنگ کے بعد کے بین الاقوامی نظام کی سالمیت کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔