
یکم اکتوبر 2025 ۔ جنوبی کوریا کے شہر سیول میں ،بوآؤ فورم فار ایشیا کے چیئرمین اور اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل بان کی مون ، شنہوا نیوز کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ (شِنہوا/یاؤ چی لن)
29اکتوبر (پیپلز ڈیلی آن لائن)30 اکتوبر کو جنوبی کوریا کے شہر چھنگجو میں 32 ویں اپیک اکنامک لیڈرز میٹنگ کا آغاز ہو رہا ہے۔اس حوالے سے بوآؤ فورم فار ایشیا کے چیئرمین اور اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل بان کی مون نےشنہوا کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں اس بات پر زور دیا کہ ایشیا-پیسیفک اکنامک کوآپریشن (APEC) کو کثیرجہتی تعاون کو قائم رکھ کر اقتصادی تعاون اور خطے میں مشترکہ خوشحالی کی قیادت کرنی چاہیے اور کلائمیٹ ایکشن ، سپلائی چین کی مضبوطی اور ڈیجیٹل سٹینڈرڈز پر مل جل کر کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ 30 اکتوبر سے شروع ہونے والا اجلاس مستقبل پر مبنی ،عملی نتائج دے گا اور عالمی ترقی و تعاون کو ایک نئی تحریک دے گا۔
چینی صدر شی جن پھنگ کے گلوبل انیشئیٹو کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ، تھئین جن میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں پیش کیا گیا یہ انیشئیٹو بروقت سامنے آیا ہے۔یہ اقدام انصاف، شمولیت اور خودمختاری کا احترام کرتا ہے، کثیر قطبیت اور شراکت داری کو فروغ دیتا ہے اور عالمی چیلنجز جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی، خوارک کے تحفظ، ڈیجیٹل تبدیلی اور صحت عامہ میں تعاون کو اجاگر کرتا ہے نیز یہ گلوبل ساوتھ کو سیاسی توانائی بھی فراہم کرتا ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ رواں سال جب اقوام متحدہ کی 80 ویں سالگرہ منا ئی جارہی ہے ، تو یہ اقدام یو این 80 انیشئیٹو کی تکمیل کرتا ہے۔ دونوں کو یکجا کرنے سے ، کثیر جہتی نظام کی قانونی حیثیت کو مضبوط کرنے، وسائل، ٹیکنالوجی اور سیاسی اختیار کو بہتر طور پر متحرک کرنے نیز ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مابین خلا کو پُر کرنے میں مدد مل سکتی ہے جس سے ایک منصفانہ اور زیادہ ذمہ دارانہ گورننس سسٹم تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
بڑھتے ہوئے یکطرفہ پن اور تحفظ پسندی کے حوالے سے متنبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ عوامل بین الاقوامی تعاون کی روح کو کمزور کر رہے ہیں جو کہ اقوام متحدہ کی بنیاد ہے۔انہوں نے کہا کہ چین کثیر جہتی نظام کا دفاع کرنے اور گلوبل گورننس کی اصلاحات کو آگے بڑھانے میں "آزاد اور تعمیری" کردار ادا کر سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چین، جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، اس نے جنوب-جنوب تعاون کو فروغ دے کر، بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو آگے بڑھا کر اور امن مشنز میں فعال طور پر شرکت سے ایک پل کا کردار ادا کیا ہے۔
بان کی مون کا کہنا تھا کہ چین کی قابل تجدید توانائی، صحت عامہ میں تعاون اور تکنیکی جدت میں مسلسل سرمایہ کاری نے عالمی اشیائے عامہ کی فراہمی کو ممکن بنایا ہے۔چین کے کلائمیٹ ایکشن ، ڈیجیٹل گورننس اور صحت عامہ کے شعبوں میں قائدانہ حیثیت اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ صرف مل جل کر کام کرنے سے ہی دنیا چیلنجز پر قابو پا سکتی ہے۔