چین نے وائٹ ہاؤس کا فون اٹھا لیا، اس بار یہ جعلی خبر نہیں بلکہ حقیقت ہے۔
7 مئی کو چینی وزارت تجارت کے ترجمان نے کہا کہ حالیہ دنوں امریکی فریق نے مختلف ذرائع سے چین کو معلومات فراہم کی ہیں اور ٹیرف وغیرہ کے معاملات پر چین کے ساتھ مذاکرات کی خواہش ظاہر کی ہے۔ چین نے امریکی فریق کی فراہم کردہ معلومات کا بغور جائزہ لینے کے بعد، عالمی توقعات، چین کے مفادات، اور امریکی صنعت اور صارفین کی اپیلوں کو مکمل طور پر مدنظر رکھتے ہوئے، امریکہ کے ساتھ رابطے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ نائب وزیر اعظم حہ لی فنگ 9 سے 12 مئی تک سوئٹزرلینڈ کا دورہ کریں گے اور چین۔امریکہ تجارت کے چینی لیڈر کے طور پر سوئٹزرلینڈ کے دورے کے دوران امریکی فریق کے لیڈر اور وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ کے ساتھ بات چیت کریں گے۔
چین کا موقف جان کر، یقیناً وائٹ ہاؤس کے دل کو کچھ سکون ملا ہو گا۔ تاہم یہ نوٹ کیا جائے کہ چینی ترجمان کے الفاظ میں صرف "رابطہ" کی خواہش ظاہر کی گئی ہے، نہ کہ "مذاکرات"۔ ترجمان نے واضح طور پر کہا : "چین کی ایک قدیم کہاوت ہے:"اس کے الفاظ سنو اور اس کا عمل دیکھو پھر فیصلہ کرو "۔ اگر امریکہ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنا چاہتا ہے، تو اسے یکطرفہ ٹیرف اقدامات کے خود پر اور دنیا پر منفی اثرات کو تسلیم کرنا ہوگا، بین الاقوامی تجارتی قوانین، انصاف اور معقول آوازوں پر غور کرنا ہوگا، خلوص دکھانا ہوگا، اپنی غلط پالیسیوں کو درست کرنا ہوگا، اور چین کے ساتھ مل کر باہمی خدشات کو برابری کی بنیاد پر حل کرنا ہوگا۔ اگر قول و فعل میں تضاد ہو ، یا مذاکرات کو بہانہ بنا کر دباؤ اور بلیک میلنگ جاری رکھی جائے، تو چین ہرگز اسے قبول نہیں کرے گا، اور نہ ہی اپنے اصولوں یا بین الاقوامی انصاف کو قربان کرے گا۔"
یہ بات بالکل واضح ہے: پہلے رابطہ کیا جائے گا، دیکھا جائے گا کہ امریکہ واقعی مخلص ہے یا نہیں۔ اگر وہ وقت کا فائدہ اٹھانے یا چالاکی دکھانے کی کوشش کرتا ہے، تو چین کا موقف مستحکم ہے: کوئی بھی بات چیت یا مذاکرات باہمی احترام، مساوی مشاورت، اور باہمی مفاد کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ چاہے ٹیرف وار ہو یا مذاکرات، چین اپنے ترقیاتی مفادات کا تحفظ کرنے، بین الاقوامی انصاف اور تجارتی نظام کی حفاظت کرنے کے عزم سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ مذاکرات کا دروازہ کھلا ہے، لیکن اگر امریکہ ٹیرف جنگ پر بضد رہا تو چین آخری حد تک اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
یقیناً ٹرمپ نے جب ٹیرف جنگ شروع کی تھی تو انہیں توقع نہیں تھی کہ چین اس قدر مضبوط اور منظم جواب دے گا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ چین کی سوچ اور عمل کے پیچھے کارفرما تاریخی اور ثقافتی منطق کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے۔ اگر وہ تاریخ اور ثقافت کے دونوں پہلوؤں سے چین کے رویے کو سمجھے، تو اسے چین کے پالیسی فیصلوں کی گہری وجوہات کا ادراک ہوگا۔ امریکہ اور مغربی ممالک کو تہذیبی تنوع کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
درحقیقت، چین کے رویے کو سمجھنا مشکل نہیں۔ بس یہ سمجھنا ہوگا کہ چین کا ٹیرف جنگ میں ردعمل اس کے تاریخی تجربات اور ثقافتی جینز سے جڑا ہوا ہے۔ جدید تاریخ میں مغربی طاقتوں نے طاقت کے بل پر چین پر "نان چنگ معاہدہ" جیسے غیرمنصفانہ معاہدے مسلط کیے، جن کا ایک اہم پہلو یہ رہا کہ چین کو اپنے ٹیرف کے حقوق سے محروم کر دیا گیا، جس کی وجہ سے اس کی معیشت دہائیوں تک غیروں کے رحم و کرم پر رہی۔ اس تاریخی صدمے نے چینی عوام کو باور کروایا کہ "ٹیرف خودمختاری ہی معاشی خودمختاری ہے"۔ لہٰذا، امریکہ کی ٹیرف جنگ کے جواب میں چین کا اقدام صرف معاشی مقابلہ بازی نہیں، بلکہ تاریخی سبق سے حاصل ہونے والی دانش مندی بھی ہے۔ جیسا کہ چینی میڈیا نے کہا: "چین کبھی دباؤ کے آگے نہیں جھکتا، کیونکہ ہم نے اس سے بھی تاریک دن دیکھے ہیں۔"
علاوہ ازیں، چینی تہذیب کی دانش ٹیرف پالیسی میں واضح نظر آتی ہے۔ قدیم "سلک روٹ" اور "چائے اور گھوڑوں کی منڈیوں" سے لے کر جدید دور میں بتدریج ٹیرف میں کمی تک، چین نے ہمیشہ تحفظ اور کھلے پن کے درمیان توازن برقرار رکھا ہے، جو چین کے روایتی "اخلاق اور مفاد" کے نظریے اور سفارتی روایات کی عکاسی کرتا ہے۔ مزید برآں، چین کی اجتماعی ثقافت نے ٹیرف جنگ میں مضبوط سپورٹ فراہم کی ہے: دباؤ کے مقابلے میں چینی حکومت، صنعتی حلقے اور عوام نے موثر تعاون کا مظاہرہ کیا ہے، چینی لوگوں کے "خاندان اور ملک کی یکجہتی " کے تصور کو سمجھنا مغربی انفرادیت پسند معاشروں کے لئے مشکل ہے۔ گہرائی سے دیکھا جائے تو چین علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری آر سی ای پی جیسے میکانزم کے ذریعے باہمی مفاد کو فروغ دے رہا ہے، جو روایتی "عالمی ہم آہنگی اور اتحاد کا نظریہ" کی جدید شکل ہے ، یعنی ٹیرف کو مشترکہ مفاد کا ذریعہ سمجھنا، نہ کہ زیرو سم گیم کا ہتھیار۔
ٹیرف جنگ کے دوران چین کی پالیسیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین اپنے بنیادی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے بھی حکمت عملی میں محتاط رہا ہے۔ یہ بظاہر متضاد خصوصیات درحقیقت چینی تہذیب کی فطری عکاسی ہیں۔ چین بار بار زور دیتا ہے کہ عالمی حالات چاہے جیسے بھی ہوں، چین ہمیشہ کھلے پن، ڈبلیو ٹی او پر مبنی کثیرالجہتی تجارتی نظام، اور دنیا کے ساتھ ترقی کے مواقع شیئر کرنے پر قائم رہے گا۔ آج کی عالمی گورننس میں، تہذیبی اختلافات سے بالاتر ہو کر "ہم آہنگی میں تنوع" کی راہ تلاش کرنا ہی انسانی ہم نصیب معاشرے کی مشترکہ تعمیر کی کلید ہے۔