22 اگست 2025 (پیپلز ڈیلی آن لائن)ڈینیس مورلے اپنی زندگی کے لیے چینی مچھیروں کے احسان مند رہے ۔وہ ان کا تذکرہ کرتے ہوئے ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ دونگ جی کے مچھیرے ہیروز ہیں، وہ نہ ہوتے تو میں زندہ نہ ہوتا اور نہ ہی میری بیٹی (ڈنیس ) دنیا میں آتی ۔ ڈینیس مورلے کون ہیں؟ اور اپنی زندگی بچانے والے دونگ جی کے مچھیرو ں کو "ہیرو " کیوں کہتے ہیں ؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں جنگ عظیم دوم کے دور میں جانا ہوگا۔
اکتوبر 1942 میں، جاپانی فوج ایک مسافر اور مال بردار جہاز لزبن مرو کے ذریعے 1,800 سے زائد برطانوی جنگی قیدیوں کو ہانگ کانگ سے جاپان منتقل کر رہی تھی ۔ جاپانی فوج نے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کی اور قیدیوں کی نقل و حمل کو چھپانے کے لیے جہاز پر کوئی جھنڈا یا علامت نہیں لہرائی، اسی وجہ سے جب جہاز جزیرہِ ڈونگجی کے قریب پہنچا تو ایک امریکی آبدوز نے اسے نشانہ بنایا۔ جہاز ڈوبنے لگا تو جاپانیوں نے صرف اپنے لوگوں کو بچایا اور جنگی قیدیوں پر گولیاں برسانے لگے ۔ قیدی جان بچانے کے لیے سمندر میں کود گئے تو انہوں نے وہاں بھی فائرنگ شروع کردی ۔ اس نازک وقت میں ڈونگجی جزیرے کے مچھیرےوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر چھوٹی چھوٹی کشتیوں کے ذریعے ان قیدیوں کو بچانے کی کاروائی شروع کی۔ فائرنگ اور دھماکوں کے باوجود وہ بار بار کشتیاں لے کر آتے اور سمندر میں جان بچانے کے لیے ہاتھ پاوں مارتے ان لوگوں کو بچا کر لے جانے کی کوشش کرتے۔ وہ کوئی تربیت یافتہ فوجی نہیں تھے بلکہ جزیرے کے عام مچھیرے تھے ، یہ کوئی منظم فوجی کاروائی بھی نہیں تھی بلکہ عام شہریوں کی جانب سے انسان دوستی پر مبنی ایک فیصلہ تھا جس کے نتیجے میں 384 برطانوی قیدیوں کی جانیں بچائی گئیں۔
بچ جانے والےقیدی اور ڈونگجی مچھیرے ایک دوسرے کی زبان سے ناواقف تھے ۔ وہ صرف اشاروں سے بات چیت کر سکتے تھے۔ خوراک اور دیگر وسائل کی کمی کے باوجود ڈونگجی کے ان مچھیروں نے برطانوی قیدیوں کے ساتھ اپنی سادہ خوراک بانٹی ۔ یہ واقعہ، دوسری جنگ عظیم کے دوران چین اور برطانیہ کے اتحاد اور اس امر کا گواہ ہے کہ دونوں قومیں فاشزم کے خلاف ایک ساتھ لڑیں۔ یہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان دوستی اور بھائی چارے کی دل کو چھو لینے والی تاریخی کہانی بھی ہے۔
بچ جانے والے ان 384 قیدیوں میں سے ایک ڈینیس مورلے بھی تھے ۔ ان کی بیٹی ڈنیس وین اپنے والد کا ذکر کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ان کے والد ہمیشہ کہتے تھے کہ وہ مچھیرے ہیرو ہیں اگر چینی مچھیرے نہ ہوتے تو وہ زندہ نہ بچتے اور نہ ہی وہ (ڈنیس وین) پیدا ہوتیں۔ ڈینیس مورلے کا انتقال 2021 میں ہوا تھا ۔اپنے والد کی ان یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈنیس بتاتی ہیں کہ ان کے لیے ماضی کو یاد کرنا بہت تکلیف دہ تھا ۔ایک مرتبہ ایک انٹرویو کے بعد وہ کئی دنوں تک خاموش رہے۔ مظالم کی سختیاں اپنے کھوئے ہوئے ساتھیوں کی یادیں ، جن میں اس کے بہترین دوست بھی شامل تھے ان سب کو یاد کرتے ہوئے وہ جذباتی طور پر بالکل ٹوٹ گئے تھے۔ لیکن وہ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ جاپانی فوج کی سفاکی اور بے رحمی کے باوجود ، چینی ماہی گیروں نے غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کیا اور دنیا کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ واقعی ہیروز تھے۔
مئی 2025 میں، ڈونگجی ماہی گیروں کی بہادری کی یادگار کی نقاب کشائی میں ڈنیس وین اور اس واقعے میں شامل دیگر جنگی قیدیوں کے بچے چین آئے ڈنیس کہتی ہیں کہ جب انہوں نے اس یادگار کو چھوا تو، ان کے جذبات ناقابل بیان تھے ۔ انہیں محسوس ہواکہ ان کے والد کی خواہش پوری ہو گئی ہے کہ ڈونگجی ماہی گیروں کی بہادری کے کارنامے ہمیشہ یاد رکھے جائیں اور انہیں ہیروز والی عزت دی جائے ۔
2015 میں برطانیہ کے دورے کے دوران، چینی صدر شی جن پھنگ نے چین ، برطانیہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے "لزبن مارو ریسکیو" کا بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ جنگ کے دوران چین اور برطانیہ کے لوگوں کے درمیان قائم ہونے والی دوستی کبھی نہیں مٹے گی اور یہ دو طرفہ تعلقات میں ایک قیمتی اثاثہ ہے۔2022 میں لزبن مارو واقعے کی 80 ویں سالگرہ کے موقعے پر ڈنیس نے صدر شی کے نام ایک خط تحریر کیا جس میں اس ریسکیو پر شکرگزاری کا اظہار کرتے ہوئے برطانیہ اور چین کے لوگوں کے درمیان قائم دوستی کا بھرپور ساتھ دینے کا اظہار کیا گیا تھا ۔ اپنے جوابی خط میں صدر شی جن پھنگ نے لکھا کہ "1942 میں لزبن مارو پر برطانوی قیدیوں کی مدد کے لیے آنے والے ، جو شان، جی جیانگ کے بہادر مچھیروں کی دل کو چھو لینے والی کہانی، چین اور برطانیہ کے فاشسٹ جارحیت کے خلاف ایک ساتھ لڑنے کی اہم گواہ ہے۔ یہ دونوں ممالک کے عوام کی گہری دوستی کا ایک تاریخی واقعہ بھی ہے"۔ڈنیس کاکہنا ہے کہ جب برطانیہ میں چینی سفیر، چنگ زہ گوانگ، نے چینی صدر کا جوابی خط پہنچایا تو یہ ان کے لیے ایک اعزاز تھا اور انہیں اس پر خوشگوارحیرت ہوئی ۔