5نومبر(پیپلز ڈیلی آن لائن)پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور کے عجائب گھر میں اینٹوں سے بنے ایک محرابی ہال میں، چھوٹے گروپس میں فرش پر بیٹھے دس سے زیادہ پاکستانی نوجوان ، چینی رضاکاروں کی رہنمائی میں پتھر کی نقاشیوں کا بغور جائزہ لے رہے ہیں کچھ دیر بعد وہ اپنے مشاہدے کی روشنی میں ان نمونوں کو کاغذ پر اتارتے ہیں۔ یہ سب ، ورثے کےتحفظ کے لیے خیبر پختونخوا کے محکمہ آثار قدیمہ وعجائب گھر اور چینی آثار قدیمہ کے رضاکاروں کی ٹیم کے مشترکہ طور پر شروع کیے گئے تعلیمی کورس 'گندھارا کے محافظ' میں شریک نوجوان ہیں۔
گندھارا آرٹ جس نے پہلی سے تیسری صدی عیسوی کے دوران اپنے نقوش واضح کیے، مشرقی و مغربی تہذیبوں کےامتزاج کی نمائندگی کرتا ہے اور انسانی تہذیب کے تبادلوں کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے اہم ہے۔ چونکہ گندھارا کے آثارِ قدیمہ اورعجائب گھر کے نوادرات کا مرکز صوبہ خیبر پختونخوا ہے، اسی لیے یہ صوبہ اس فن کی تحقیق کے لیے ایک قیمتی خزانے کی صندوقچی جیسا ہے۔ حالیہ برسوں میں ، پاکستان اور چین کے درمیان عجائب گھروں اور آثار قدیمہ کے حوالے سے تعاون بڑھا ہے اوراس خطے کی جانب چینی ماہرین آثارِ قدیمہ کی توجہ میں اضافہ ہوا ہے۔
2023 ء میں ، پاکستان سے 173 ثقافتی نوادرات چین لائی گئیں، جنہیں چین کے مشہور پیلس میوزیم کی 30 نودرات کے ساتھ رکھا گیا ،مجموعی طور پر یہ چین میں گندھارا فن کی اب تک کی سب سے بڑی نمائش تھی۔ خیبر پختونخوا کے محکمہ آثار قدیمہ وعجائب گھر کے ڈائریکٹر ڈاکٹرعبد الصمد کا کہنا تھا کہ یہ ایک غیر معمولی نمائش تھی کیونکہ چینی لوگوں کی ایک بڑی تعداد پہلی مرتبہ پاکستانی گندھارا فن سے متعارف ہو رہی تھی اور ان کا جوش و دلچسپی ہمارے لیے باعث حیرت و خوشی تھی ۔ڈاکٹر عبد الصمد کا ماننا ہے کہ پاکستان اور چین دونوں ،بھرپور ثقافتی ورثے کے حامل ہیں اور دونوں ممالک کا آثارِ قدیمہ کی تحفظ کےشعبے میں تعاون حوصلہ افزا ہے۔ چین کی جامعات اور عجائب گھروں کے ساتھ تعاون کی بدولت، پاکستانی ماہرین آثارِ قدیمہ جدید ترین طریقے اور مہارتیں سیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ پچھلے چند سالوں میں، پاکستانی سکالرز نےچین کےپہلے سے زیادہ دورے کیے ہیں اوروہ دون ہوانگ کے موگاو غاروں اور چھونگ چھنگ میں دازو کی چٹانوں پر نقاشی جیسے تاریخی ثقافتی ورثے سے متعارف ہوئے ہیں جبکہ چینی ماہرین کو بھی موقع ملا ہے کہ وہ پاکستانی ماہرین کو تحقیقاتی نتائج سے آگاہ کریں، اس قریبی تبادلے نے پاکستانی آثارِ قدیمہ و عجائب گھروں کے امور پر بہت متاثر کن اثرات مرتب کیے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں ، گندھارا ثقافت کے آثار دور دراز مقامات تک پھیلے ہوئے ہیں اور کئی علاقے تو اتنے دور ہیں کہ وہاں تک رسائی بہت مشکل ہے اسی لیے ان کا انتظام اور ان کی حفاظت ایک چیلنج ہے۔ انہی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے، دونوں ممالک کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ مل کر کام کر رہے ہیں اور"گندھارا کے محافظ" اسی سلسلے میں ایک عملی کوشش ہے۔ دونوں ممالک کے رضاکار اور محققین مقامی لوگوں میں آثارِ قدیمہ کی اہمیت کا شعور جگانے کے لیے ان کےساتھ بات چیت کرتے ہیں، خاص طور پر نوجوانوں کے لیے مختلف سرگرمیاں منعقد کرتے ہیں اور متعلقہ تاریخی و ثقافتی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ لوگوں کو بتدریج یہ احساس ہونے لگا ہے کہ تاریخی آثار کی حفاظت درحقیقت ایک قیمتی سرمائےکی حفاظت ہے۔
ڈاکٹر عبد الصمد نے یہ بھی کہا کہ وہ پاکستانی و چینی ماہرِین آثارِ قدیمہ کے تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے سرگرم ہیں اور چین سے ثقافتی ورثےکے تحفظ کی نئی ٹیکنالوجی بھی حاصل کر رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایشیا میں چین کے پاس ، غاروں، پتھروں کی قدیم تعمیرات کےتحفظ میں وسیع تجربہ ،مہارت اور ٹیکنالوجی موجود ہے ، جو پاکستان کو آثار قدیمہ کی مرمت و بحالی ، نگرانی اور دیکھ بھال کے شعبے میں تجربے کی کمی پر قابو پانے میں مدد دے سکتی ہے۔" چینی ٹیم کی معاونت سے، خیبر پختونخوا کی ثقافتی ورثے کے تحفظ کی ٹیم کو ابتدائی شکل دے دی گئی ہے اور تحفظ کی ٹیکنالوجی میں بھی بہتری آئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ پشاور اور سوات میوزیم سمیت دیگر میوزیمز میں نوادرات کے مجموعوں کے تھری-ڈی سکین اور ڈیجیٹل ماڈلنگ کا کام شروع کیا جا چکا ہے اور امید ہے کہ اس کےذریعے لوگ گندھارا فن کی دلکشی کو پہلے کی نسبت زیادہ محسوس کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان عجائب گھروں کےشعبے میں تعاون کو مزید مضبوط بنایا جائے ، کیونکہ کام کے دوران اس بات کا بخوبی احساس ہوتا ہے کہ پاکستانی اور چینی عوام کو ایک دوسرے کی تاریخ و ثقافت میں دل چسپی ہے۔ عجائب گھروں اور آثارِ قدیمہ کے ذریعے، ہم مزید مواقع پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ عوام شاندار تہذیبی تبادلوں کا زیادہ سے زیادہ تجربہ کر سکیں۔




