
تحریر : ڈاکٹر محمد شہباز (صدر چائنا پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن )
گزشتہ ماہ صوبہ یوننان کے شہر کھن منگ میں جامع انضمامی آنکولوجی (CCHIO) پر ، چائنا کانفرنس2025 کا انعقاد ہوا ۔ یہ کانفرنس صرف ایک کانفرنس نہیں ، ایک عالمی تحریک ہےیہ کینسر کے خلاف عالمی جدوجہد میں ایک ایسا تاریخی اجتماع تھا ، جو بین الاقوامی تعاون کے لیے ایک طاقتور محرک اور چین کی بصیرت افروز قیادت کی مثال تھا اور جس نے آنکولوجی کے مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
سی سی ایچ آئی او 2025 میں شرکا کی تعداد 100,000 سے زائد تھی جب کہ دنیا کے ہر کونے سے 6,000 بین الاقوامی ماہرین بھی شامل تھے۔ دو مراحل پر مشتمل اس ایونٹ کے پہلے مرحلے میں، سات قومی فورمز منعقد کیے گئے، جن میں بے حد تفصیل کے ساتھ چین میں کینسر کے علاقائی چیلنجز کا تجزیہ کیا گیا۔ دوسرے مرحلے میں، ان نتائج کو ایک مربوط، عملی حکمت عملی کے تحت یکجا کیا گیا جو سی سی ایچ آئی او کے لیے ایک ایسا ماڈل ہے جس کی دنیا کو فوری ضرورت ہے۔ سی سی ایچ آئی او کا بنیادی فلسفہ، انضمام کا جدید "7+1" ماڈل ہے جو کینسر کی جامع دیکھ بھال کے لیے ایک خاکہ فراہم کرتا ہے۔ یہ ماڈل روک تھام، تشخیص، علاج، بحالی اور درد سے آرام پہنچانے کا ایک بہترین امتزاج ہے۔ آنکولوجی کے 200ذیلی خصائص پر مشتمل 300 سے زائد سائنسی سیشنز کے ساتھ یہ کانفرنس ایک کثیر جہتی علمی پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتی ہے جہاں جدت صرف موضوعِ بحث ہی نہیں بلکہ عملی طور پر پیش بھی کی گئی ۔
اس کانفرنس میں پاکستان کے لیے ایک اہم بات ، چائنا اینٹی کینسر ایسوسی ایشن کی کینسر کے علاج کی ہدایات کی کاپی کا اردو ترجمے میں دستیاب ہونا تھی ۔ یہ ہدایات اب 16 زبانوں میں دستیاب ہیں، جو کینسر کی اعلیٰ معیار کی دیکھ بھال کو عوام تک پہنچانے کے تاریخی اقدام کی نمائندگی کرتی ہیں۔ پاکستانی طبی ماہرین کے لیے، یہ ترجمہ ایک تحفہ ہے، ایک ایسا قابل رسائی، شواہد پر مبنی روڈ میپ جو پاکستان میں میڈیکل پریکٹسز کو زیادہ معیاری بنائے گا اور اس سے براہ راست ملک بھر کے مریضوں کو فائدہ پہنچے گا۔ اس کانفرنس نے ہیلتھ کیئر کے اہم شعبے میں پاکستان اور چین کے درمیان مضبوط دوستی کو مستحکم کرنے کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم فراہم کیا ہے جس میں بین الاقوامی رہنماؤں کے ساتھ کئی کامیاب ملاقاتوں کا انعقاد ہو ا ، خاص طور پر کھن منگ میڈیکل یونیورسٹی اور یوننان صوبے کے معروف کینسر ہسپتالوں کے ساتھ ٹھوس شراکت داری قائم کرنے پر توجہ دی گئی ۔ٹھوس اور مستقبل پر مبنی ان ملاقاتوں میں تعاون کے چند اہم شعبےتوجہ کا مرکز رہے جن میں پاکستان میں موجود مخصوص کینسر پروفائلز کے حل کے لیے چینی ترقی کو جینومکس، ابتدائی تشخیص، اور جدید علاج میں استعمال کرنا۔ پاکستانی طلبہ کے لیے تبادلہ پروگرام قائم کرنا اور پاکستانی ڈاکٹرز، سرجنز، اور نرسز کے لیے چینی اداروں میں منظم تربیتی فیلوشپس فراہم کرنا۔ پاکستان میں بڑے ہسپتالوں تک جدید کینسر ٹیکنالوجیز کی منتقلی کو آسان بنانا، بشمول جدید ریڈیو تھراپی سسٹمز اوراے آئی کی مدد سے تشخیصی آلات کی فراہمی ۔

عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق پاکستان کو دس لاکھ کی آبادی کے لیے 250 لائنر ایکسلریٹرز کی ضرورت ہے جب کہ پاکستان میں صرف 69 لائنر ایکسلریٹرز دستیاب ہیں۔ چائنا پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر کی حیثیت سے میں نے ایف ڈی ایس کنسورشیم کے بین الاقوامی تعاون کے ڈائریکٹر نی میاؤ کے ساتھ بات چیت کی تاکہ پاکستان میں MELAC لائنر ایکسلریٹرز ، جدید ریڈیئیشن تھراپی مشینز اور ٹیکنالوجی کی پاکستان میں منتقلی ممکن ہوسکے ۔ یہ لاگت میں بھی مؤثر ہوگی اور اس سے پاکستان میں کینسر کے مریضوں کو جدید ریڈیئیشن تھراپی دستیاب ہوگی ۔ اس تعاون کو ادارہ جاتی شکل دینے کی ایک اہم قدم کے طور پر، کھن منگ میڈیکل یونیورسٹی اور نشتر میڈیکل یونیورسٹی ملتان کے درمیان سسٹر یونیورسٹی کی شراکت داری کی تجویز بھی پیش کی گئی تاکہ تعلیمی تبادلے، فیکلٹی کی ترقی اور مشترکہ تحقیقی منصوبوں پر مبنی ایک ایسا مستقل چینل تشکیل پائے جو آنے والی نسلوں کے لیے بھی علم کا ایک ورثہ تخلیق کرے ۔
بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹو کا جذبہ ،کانفرنس ہالز میں واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا تھا ۔ یہاں بیلٹ اینڈ روڈ ہیلتھ کیئر سینٹر کے فوکل پرسن ڈاکٹر معروف بھی موجود تھے جو چین-بنگلہ دیش طبی سیاحت کو فعال طور پر فروغ دے رہے ہیں۔ یہ ماڈل پاکستان کے لیے ایک بھرپور مواقع فراہم کرتا ہے، اس پلیٹ فارم کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ نہ صرف مریضؤں کے لیے بلکہ جدید کینسر کیئر اور تکنیکی جدت میں تعاون کے لیے بھی اس سے مستفید ہوا جا سکتا ہے ، اس "ہیلتھ سلک روڈ" میں شامل ہو کر، پاکستان خود کو اس خطے میں اعلیٰ معیار کی، کم قیمت ہیلتھ کیئر سینٹر کے طور پر پیش کر سکتا ہے۔

لیکچر ہالز کے علاوہ یہاںحقیقی دنیا میں عمل درآمد کو تیز کرنے کے لیے ایک جامع ماحولیاتی نظام پیش کیا گیا ۔ کانگریس-نمائش-صنعت کے ماڈل نے کامیابی کے ساتھ ایک ہم آہنگی پیدا کی ، نمائش میں روبوٹک سرجری کے معاونین سے لے کر نیکسٹ جنریشن پلیٹ فارمز تک سب کچھ دکھایا گیا۔مزید برآں، سی سی ایچ آئی او کلاؤڈ پلیٹ فارم کا آغاز اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کانفرنس کا اثر بہت دور تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ڈیجیٹل مرکز ان لوگوں کے لیے متحرک میٹاورس فراہم کرتا ہے جو ذاتی طور پر شرکت نہیں کر سکتے اور طبی تعلیم میں تسلسل کے ساتھ سال بھر کا سورس فراہم کرتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے، جہاں سفر ایک رکاوٹ ہو سکتا ہے، یہ ڈیجیٹل علم ، گیم چینجر ہے، جو ہمارے ہزاروں ہیلتھ ورکرز کو عالمی معیار کی آنکولوجی کی تعلیم تک رسائی فراہم کرتا ہے۔
سی سی ایچ آئی او 2025 نے میرے اس یقین کو مضبوط کیا ہے کہ کینسر کے خلاف جنگ اکیلے نہیں جیتی جا سکتی۔ اس کے لیے انضمام، جدت، اور بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے جو اس کانفرنس نے بھرپور طریقے سے پیش کیا ہے۔ چین، CACA اور CCHIO کے ذریعے، نہ صرف سائنسی مثال قائم کر رہا ہے بلکہ دنیا کی طرف شراکت داری کا ہاتھ بھی بڑھا رہا ہے۔ پاکستان کو CACA کی رہنما خطوط کو اپنانے سے لے کر اداروں کے تعلقات کو فروغ دینے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کو آسان بنانے تک کے مواقع کو فوری طور پر اپنانا چاہیے۔ کھن منگ میں یونیورسٹی کے ڈینز، ہسپتال کے ڈائریکٹرزاور دنیا بھر سے آئے ہوئے ماہرین کے ساتھ کی جانے والی ملاقاتوں میں جو بیج بوئے ہیں وہ پاکستان میں آنکولوجی کیئر کی ترقی کا ایک جنگل بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سی سی ایچ آئی او 2025 میں بنائے گئے تعلقات اور حاصل کردہ علم پاکستان میں کینسر کیئر کے معیار کو بلند کرنے کے لیے ہماری جاری کوششوں میں اہم کردار ادا کریں گے ۔ ہم اپنے چینی ہم منصبوں اور رہنماؤں کے ساتھ مل کر ایک صحت مند، روشن، اور مشترکہ مستقبل تشکیل دے رہے ہیں ، ایک ایسا مستقبل جو کینسر کے خوف سے آزاد ہے۔



