18 اگست 2025 (پیپلز ڈیلی آن لائن) 14 اگست کو بیجنگ میں، اپنی نوعیت کے پہلے ہیومنائیڈ روبوٹ گیمز 2025 کا آغاز ہوا۔ پندرہ سے 17 اگست تک جاری رہنے والے مقابلوں میں 16 ممالک کی 280 ٹیمز نے 26 ایونٹس میں حصہ لیا۔ان مقابلوں نے ہیومینائیڈ روبوٹ کے ذریعے مجسم ذہانت کے ابھرتے ہوئے شعبے کو عوام کے سامنے آنے اور تکنیکی تبادلے کا پلیٹ فارم فراہم کیا ہے۔
حتمی جانچ پرکھ کا میدان
مقابلے میں 100 میٹر، 400 میٹر، 1500 میٹرکی لانگ جمپ، فری سٹائل جمناسٹکس اور فٹ بال جیسے ایونٹس شامل تھے۔ نمائش میں کنگ فو کا مظاہرہ بھی پیش کیا گیا، جبکہ منظرنامے پر مبنی ایونٹس نے حقیقی دنیا کے ماحول مثلاً فیکٹریز ، ہسپتال اور ہوٹلز کی نقل کی جنہوں نے انسان نما روبوٹ کی حتمی جانچ اور آزمائش گاہ کا کردار ادا کیا ۔
باکسنگ کے مقابلوں میں ہیلمٹ اور مکے بازی کے مخصوص دستانے پہنے ،تقریباً 130 سینٹی میٹر لمبے اور 35 کلوگرام وزنی دو روبوٹس نے ، انسانی باکسرز کی طرح ہکس ، سائیڈ ککس اور گھٹنے سے مارنے کی تکنیک استعمال کی ، مخالف کے حملوں سے خود کو بچایا یہاں تک کہ جب وہ گرے تو بغیر کسی مدد کے اٹھ کھڑے ہوئے اور مقابلہ جاری رکھا۔یونی ٹری کے اہلکار ،ڈنگ ہواشنگ کا کہناہے کہ کہ فری اسٹائل مقابلوں میں، ہارڈویئر کی پائیداری ،سافٹ ویئر الگوردھمز کی طرح ہی اہم ہے۔ اگر سٹرکچر، دھچکا نہیں سہہ سکتا تو یقیناً وہ ٹوٹ جائے گااور اگر توازن قائم رکھنے کا الگوردھم ناکام ہو جائے تو ایک ہلکا سا دھکا بھی روبوٹ کو گرا سکتا ہے۔
پانچ اور تین کھلاڑیوں والے فٹ بال کے فائنل مقابلوں میں، چار ٹیمز نے بیجنگ کی بوسٹر روبوٹکس کے ، ٹی ون روبوٹ میدان میں اتارے۔ یہ روبوٹ خود مختاری کے ساتھ صورتٰ حال کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور فٹ بال کی پیچیدہ تیکنیکوں مثلاً ٹروٹنگ ، ٹیکلنگ اور ڈیفینڈنگ کو مکمل طور پر خود سرانجام دیتے ہیں۔ ان کی اس مہارت کے حصول کی خاطر نہ صرف ہلکے بلکہ بے حد مضبوط ہارڈویئر کی ضرورت ہوتی ہے جو دھچکوں کو برداشت کر سکے ساتھ ہی ساتھ رئیل ٹائم کے ادراک ، جدید موشن کنٹرول، فوری فیصلہ سازی اور ہم آہنگی پر مبنی "ملٹی ایجنٹ کوآرڈینیشن" بھی ضروری ہے۔
بوسٹر روبوٹکس کے نائب صدر، چاؤ وی چن کے مطابق، روبوٹ فٹ بال ، ٹیکنالوجی کے لیے سب سے بنیادی عالمی تجرباتی میدان فراہم کرتا ہے۔ فٹ بال کے منظرناموں میں انسان نما روبوٹ کی مہارتیں، مثلاً نقل و حرکت، صورت حال کا ادراک کرنے کے الگوردھمز ، پوزیشننگ ، نیویگیشن، اور فیصلہ سازی ، حقیقی دنیا کی ایپلیکیشنز کے لیے اہم ہیں۔
قابل ، باصلاحیت نوجوان
ان گیمز میں جہاں ،روبوٹ ایتھلیٹس نے اپنا نام بنایا وہیں ، پس پردہ کام کرنے والے انسانی آپریٹرز نے بھی لوگوں کی بھرپور توجہ حاصل کی اور یہ اس لیے بھی کیونکہ ان میں زیادہ تر کی عمر 20 سے 30 سال کے درمیان تھی، جن میں یونیورسٹی کے طلبہ اور نوجوان انجینئرز دونوں شامل تھے ، بلکہ کچھ آپریٹرز تو ابھی ہائی سکول میں تھے، مثلاً افتتاحی تقریب میں ایک پرچم بردار، بیجنگ کے ایک جونیئر ہائی سکول کا 14 سالہ طالب علم تھا جسے اس ایونٹ کا سب سے کم عمر روبوٹک انجینئر قرار دیا گیا۔فٹ بال کے مقابلوں میں بھی تین ٹیمیز جونیئر اور سینئر ہائی اسکول کے طلبہ پر مشتمل تھیں۔
کھلا گلوبل پلیٹ فارم
مختلف ممالک سے نوجوان ٹیلنٹ ہیومینائیڈ روبوٹکس کی ترقی میں شامل ہو رہے ہیں۔ زیادہ تر STEM (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی) کے شوقین یا یونیورسٹی کے طلبہ ہیں جو ریاضی، مکینیکل انجینئرنگ، الیکٹرانکس، کمپیوٹر سائنس، اور مواصلات جیسے شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ "چائنیز ٹیلنٹ " انسان نما روبوٹکس کی ترقی میں ایک اہم عنصر ہے۔ روبو کپ ایشیا پیسیفک کنفیڈریشن کے صدر اور ان کھیلوں کے شریک منتظم جو چانگ جیؤ کے مطابق ، چینی معاشرہ اور والدین دونوں ہیSTEM تعلیم کو بہت اہمیت دیتے ہیں ، جو ایک ایسا منفرد ثقافتی اور سماجی ماحول تشکیل دیتا ہے جس میں بچے ان مقابلوں میں جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیتے ہیں اور یہی ماحول صلاحیتوں کی ترقی کو فروغ دیتا ہے۔
رواں سال مئی میں جاری کردہ پالیسی دستاویز کے مطابق ، چین ایک ایسا AI تعلیمی نظام قائم کرے گا جو ابتدائی، جونیئر ہائی اور سینئر ہائی اسکولز کا احاطہ کرے گا تاکہ طلبہ کو بنیادی علمی آگاہی سے لے کر عملی تکنیکی جدت تک مکمل رہنمائی فراہم کی جا سکے۔