9اکتوبر (پیپلز ڈیلی آن لائن)30 ستمبر سے چین کے سرکاری میڈیا پیپلز ڈیلی نے مسلسل 8 دن تک "جونگ ٹسائی ون" کے نام سے دستخط شدہ مضامین شائع کیے، جن کا مقصد چین کی اقتصادی پالیسیز سے متعلق عالمی تشویش کا جواب دینا تھا۔
چین کی طویل مدتی معاشی ترقی میں استحکام قائم رکھنے کی صلاحیت ہے
مضمون بعنوان "چینی معیشت کی طویل مدتی مستحکم ترقی کی داخلی منطق کی گہری سمجھ" میں کہا گیا ہے کہ چودھویں پانچ سالہ منصوبے کی مدت کے دوران، چین کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) نے مسلسل 100 کھرب یوان کی حد عبور کی،پھر 10 کھرب یوان کی دیگر اضافی حدیں بھی پار کی گئیں اور توقع ہے کہ رواں سال یہ 140 کھرب یوان تک پہنچ جائے گی۔
مضمون کے مطابق، اتنی بڑی معیشت کی طویل مدتی مستحکم ترقی ، مضبوط داخلی نظام کا ثبوت ہے۔ مثال کے طور پر، چینی کمیونسٹ پارٹی کی طویل مدتی حکمرانی، مغربی طرز کی کثیر الجماعتی سیاست میں پالیسیز کے عدم تسلسل اور بار بار تبدیلی جیسے مسائل سے محفوظ رکھتی ہے اور یہ چین کی اقتصادی ترقی کے لیے استحکام فراہم کرتی ہے۔
چین ،جامع مالیاتی و اقتصادی کنٹرول کے نظام میں بہتری، مخالف بزنس سائیکل پالیسیز کے نفاذ، مارکیٹ کی توقعات کو درست سمت دینے اور سماجی اعتماد کی بحالی پر زور دیتا ہے، تاکہ پالیسیز میں قوت اور لچک دونوں قائم رہیں اور ممکنہ معاشی اتار چڑھاؤ کو بروقت سنبھالا جا سکے۔
صنعتوں کی تبدیلی اور اپ گریڈنگ "یکساں رفتار " سے آگے بڑھنے کا عمل نہیں
"چین کی اقتصادی ترقی کی موجودہ صورت حال کا سائنسی و معروضی تجزیہ"کے عنوان سے لکھے گئے مضمون کے مطابق، اگرچہ کچھ لوگ چین کی معیشت پر منفی تبصرے کرتے ہیں، لیکن مجموعی طور پر صورتحال مثبت سمت میں گامزن ہے اور مستقبل امید افزا ہے۔
مضمون میں کہا گیا ہے کہ صنعتی تبدیلی اور ترقی ایک ایسا عمل نہیں ہے جہاں تمام شعبے ایک ساتھ ترقی کریں؛ یہ 'ہم قدم ہو کر چلنا' نہیں ہے۔اس میں کچھ شعبے آگے ہوں گے تو کچھ پیچھے، جس سے مختلف سطحوں پر ترقی کا فرق پیدا ہوگا۔ اسی لیے ہمیں جامع نقطہ نظر سے تجزیہ کرنا چاہیےاوراس حوالے سے محض چند اداروں یا افراد پر پڑنے والے ان وقتی اثرات کے باعث مجموعی اقتصادی صورتحال کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔اس کے ساتھ ساتھ مضبوط پالیسی حمایت اور اصلاحات کے ذریعے اس " فرق" کو کم کرنے اور عوام کو ترقی سے مستفید کروانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
تیز تر تبدیلی اور اپ گریڈنگ غیرمعمولی مواقع لاتی ہے
مضمون "چینی معیشت کی اپ گریڈنگ میں چھپے بڑے مواقع" میں ان آرا کی تردید کی گئی ہے کہ چین میں سرمایہ کاری اور ترقی کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔
مضمون میں کہا گیا کہ چین میں اعلیٰ سطحی ٹیکنالوجی کے ماہرین کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے، اور ہر سال 5 ملین سے زائد STEM (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، ریاضی) گریجویٹسسامنے آتے ہیں، جس سے "انجینئرز کی افرادی قوت" مسلسل مضبوط ہو رہی ہے جوکہ چینی ٹیکنالوجی و صنعتی ترقی کی اہم محرک ہیں۔
اسی طرح، چین کی فی کس جی ڈی پی 13,000 امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، اور اس کی بڑی کنزیومر مارکیٹ مزید وسعت پا رہی ہے، جہاں نئی طلب، نئی سپلائی چین کو جنم دے رہی ہے اور یہ عمل سرمایہ کاری کے بے شمار مواقع فراہم کر رہا ہے۔
چینی میکرو اکنامک پالیسی خاص مفادات والے کسی گروہ کے زیر اثر نہیں
مضمون "چینی معیشت کے اعلیٰ ترقیاتی معیار کے تیقن کو جامع انداز میں سمجھنا" میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں "اعتبار" ایک نایاب ذریعہ بن چکاہے اور یہ چین کی میکرو پالیسی میں موجود ہے۔
تحریر میں وضاحت کی گئی کہ چین ہمیشہ "استحکام میں بہتری" کے بنیادی اصول پر عمل کرتا ہے اور مالیاتی و اقتصادی پالیسیز میں تسلسل، استحکام نیز لچک برقرار رکھتے ہوئے حالات کے مطابق بروقت ردِعمل دیتا ہے۔جبکہ مغربی ممالک میں پالیسی اکثر انتخابی سیاست کا شکار ہو جاتی ہے اور اس کا تسلسل برقرار نہیں رہتا ہے۔ اس کے برعکس، چین کی میکرو پالیسی کسی خاص مفادات والے گروہ کی نہیں بلکہ مکمل طور پر عوامی مفادات پر مبنی ہوتی ہے، جو مارکیٹ کے لیے اعتماد کی ضمانت ہے۔
چین کی ترقی دنیا کے لیے ایک "موقع" ہے نہ کہ "خطرہ"
مضمون "چین کی اقتصادی ترقی کی کھلے پن اور مشترکہ مفاد کی خصوصیت" میں کہا گیا ہے کہ چین کی ترقی دنیا کے لیے ایک بڑا موقع ہے، نہ کہ کسی طرح کا نقصان یا خطرہ۔
تحریر میں واضح کیا گیا کہ چین کی مارکیٹ بہت بڑی اور تیزی سے ترقی کرنے والی مارکیٹ ہے، جس میں سالانہ تقریباً 50 کھرب یوان کی کھپت اور 20 کھرب یوان سے زائد کی درآمدات ہو رہی ہیں۔ چین اعلیٰ معیار کے بین الاقوامی تجارتی اصولوں سے ہم آہنگ ہو رہا ہے، کاروباری ماحول کو بہتر بنا رہا ہے اور ادارہ جاتی سطح پر کھلے پن کو وسعت دے رہا ہے۔
صنعتی شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں، جبکہ ٹیلی کام، میڈیکل، تعلیم اور دیگر سروس سیکٹرز میں بھی بتدریج کھلا پن آ رہا ہے۔
چین-امریکا تجارتی کونسل کی رپورٹ کے مطابق، زیادہ تر کمپنیز مانتی ہیں کہ چینی مارکیٹ ان کی عالمی مسابقت کو برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔