• صفحہ اول>>سائنس و ٹیکنالوجی

    لیبارٹریز  سے سیٹلائٹس تک: عالمی سطح پر چین کا سائنسی اثرو رسوخ  بڑھ رہا ہے

    (پیپلز ڈیلی آن لائن)2025-12-09
    لیبارٹریز  سے سیٹلائٹس تک: عالمی سطح پر چین کا سائنسی اثرو رسوخ  بڑھ رہا ہے

    بیجنگ کی مصروف لیبارٹریز سے لے کر زمین کے گرد گردش کرتے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹس تک، متعدد عالمی رینکنگز اور نامور اداروں کی حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹس سے ایک بات تو واضح ہے کہ چین کی سائنسی تحقیق کی صلاحیتیں غیر معمولی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ ان نتائج کے مطابق چین تحقیق کے معیار اور سائنسی قیادت دونوں میدانوں میں ایک بڑی قوت کے طور پر نمایاں ہے اور پائیدار ترقی کی عالمی کوششوں میں نئی جان ڈال رہا ہے۔

    نئی شائع ہونے والی نیچر انڈیکس 2025 سائنس سٹیز رپورٹ کے مطابق دنیا کے 10 سر فہرست شہروں میں چینی شہروں کی تعداد 2023 میں پانچ تھی جو کہ 2024 میں چھ ہو گئی اور یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ چین اس درجہ بندی میں اکثریت کا حامل ہے۔

    نیچر انڈیکس کے بنیادی اشاریوں کے مطابق بیجنگ مسلسل نویں سال دنیا کا نمبر ون سائنسی شہر قرار پایا ہے، جبکہ 2023 سے 2024 کے درمیان بیجنگ کی ریسرچ پروڈکشن میں 9 فیصد سے زائد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔بیجنگ کے علاوہ شنگھائی، گوانگ جو، ووہان، نانجنگ اور ہانگ جو بھی ورلڈ ٹاپ 10 میں شامل ہیں۔ صرف شنگھائی میں ہی سائنسی اشاعتوں کی تعداد میں تقریباً 20 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

    یہ پہلی بار ہے کہ نیچر انڈیکس سائنس سٹیز سپلیمنٹ کے مطابق دنیا کے ٹاپ 10 سائنسی مراکز میں سے نصف سے زیادہ چینی شہر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ،کیمسٹری، فزیکل سائنسز، اور ارضی و ماحولیاتی علوم کے شعبوں میں چینی شہروں کو نمایاں برتری حاصل ہے اور یہ تینوں میدانوں میں عالمی سطح پر سرفہرست ہیں، خاص طور پر کیمسٹری میں پہلی مرتبہ تمام ٹاپ 10 پوزیشنز چینی شہروں نے حاصل کیں۔ باقی دو شعبوں میں چینی شہروں نے دس میں سے چھ درجے حاصل کیے، جبکہ بیجنگ تینوں ہی شعبوں میں دنیا بھر میں پہلے نمبر پر رہا۔

    عالمی ادارہ برائے حقوق املاک دانش ،وایپو، کی جانب سے جاری کردہ ،گلوبل انوویشن انڈیکس 2025 میں "شینزن-ہانگ کانگ-گوانگ جو" کلسٹر کو دنیا کا نمبر ون سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کلسٹر قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین پہلی بار دنیا کی دس سب سے زیادہ اختراعی معیشتوں میں شامل ہوا ہے۔

    مجموعی سائنسی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ چینی سائنس دانوں کا بین الاقوامی اثر و رسوخ بھی مستقل طور پر بڑھ رہا ہے۔امریکی جریدے پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز (PNAS) میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تحقیق نے اس ساختی تبدیلی کی نشاندہی کی ہے۔ ڈیٹا کے مطابق اب چین اور برطانیہ کے درمیان ہونے والے مشترکہ تحقیقی منصوبوں میں نصف سے زائد کی قیادت چینی سائنس دانوں کے ہاتھ میں ہے اور یہی رجحان امریکا اور یورپ کے ساتھ تعاون میں بھی سامنے آ رہا ہے۔یہ قیادت اعلیٰ تحقیقی معیارسے تقویت پاتی ہے۔ عالمی اینالیٹکس ادارے کلاری ویٹ کی جانب سے جاری کردہ ہائیلی سائیٹڈ ریسرچرز 2025 فہرست میں چائنیز اکیڈمی آف سائنسز 258 حوالہ جات کے ساتھ دنیا میں پہلے نمبر پر رہی اور اس نے ہارورڈ یونیورسٹی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

    سویڈن کی فاؤنڈیشن فار انٹرنیشنل کوآپریشن اِن ریسرچ اینڈ ہائیر ایجوکیشن (STINT) کے تجزیے بھی اس رجحان کی تصدیق کرتے ہیں ۔ ان کی نومبر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب مقدار کے بجائے اعلیٰ اثر رکھنے والی اشاعتوں کو معیار بنایا جائے تو خصوصاً ریاضی، کمپیوٹنگ اور انجینئرنگ کے شعبوں میں تحقیق کی قوت کے لحاظ سے چین امریکا سے آگے نکل چکا ہے۔اس رپورٹ کے مصنف ایرِک فورسبرگ گزشتہ دو دہائیوں میں چین کی علمی صلاحیتوں کی تیز رفتار ترقی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے ان تبدیلیوں کو جنم لیتے دیکھا ہے، جو بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن بلکہ چونکا دینے والی ہو سکتی ہیں۔

    امریکا کی نیویارک یونیورسٹی کی جانب سے جاری کردہ 70 سالہ جامع مطالعے کے مطابق 2023 میں دنیا بھر میں ریموٹ سینسنگ کے موضوع پر شائع ہونے والے سائنسی مضامین میں سے 47 فیصد چین میں تیار کیے گئے تھے۔معروف سائنٹفک پبلشنگ آرگنائزیشن اسپرنگر نیچر کی تازہ ترین عالمی رپورٹ کے مطابق پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) سے متعلق تحقیقی مضامین میں سب سے زیادہ حصہ چین کا ہے اور چین کی سائنسی کامیابیاں عالمی سطح پر SDGs سے متعلق پالیسیز کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ اسپرنگر نیچر کے SDG پروگرام کی ڈائریکٹر نیکولا جونز کا کہنا ہے کہ چین کے تحقیقی نتائج مختلف ممالک میں بڑے پیمانے پر حوالے کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں جس سے چینی سائنس کے عالمی فوائد اور افادیت کی عکاسی ہوتی ہے۔

    معروف جریدے نیچر کی ایڈیٹر اِن چیف ماگدالینا سِکِپر کا بھی یہی موقف ہے کہ سائنسی تحقیق بظاہر ایک عالمی مشن ہے، لیکن مختلف اشاریوں پر نظر ڈالی جائے تو چین ، عالمی تحقیقی نظام میں اپنی موجودگی اور اثر و رسوخ کو مسلسل مضبوط کر رہا ہے۔

    ویڈیوز

    زبان