• صفحہ اول>>چین کے رنگ

    صحرائے تکلامکان میں"ڈیزرٹ پاپلر سپرٹ"  کے کرشمے

    (پیپلز ڈیلی آن لائن)2025-07-03
    صحرائے تکلامکان میں
    25اکتوبر 2024 ۔ شمال مغربی چین کے سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے میں یولی کاؤنٹی کے ہولوداؤ سیاحتی مقام پر موجود چنار کے درختوں کےجنگل کا فضائی منظر ۔ (شنہوا/حو ہوہو)

    3 جولائی2025 (پیپلز ڈیلی آن لائن) صحرائے تکلامکان میں چنار کے درختوں نے اس ماحول میں ایک نئی جان ڈال دی ہے۔ یہاں اس درخت کی ایک قسم پاپولس یوفریٹیکا، سخت حالات کے خلاف پھل پھول رہی ہے، سردی، گرمی، تھور اور شدید خشک سالی کو برداشت کرتے ہوئے یہ درخت ریت کے طوفانوں کے خلاف ایک قدرتی رکاوٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ درختوں کے اس ہار نہ ماننے والے مزاج کی طرح اس علاقے میں رضاکاروں کا ایک گروہ بھی تکلا مکان کے اس ریتلے میدان کو سبزے میں تبدیل کرنے کے لیے بلا تکان کام کر رہا ہے۔ ان کی مستقل مزاجی اور لگن کے باعث مقامی لوگ انہیں 'ڈیزرٹ پاپلر سپرٹ' کہتے ہیں۔

    نورجمال ایسے ہی رضاکاروں میں سے ایک ہیں۔ 2010 میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد، وہ آکسو پریفیکچر میں اپنے آبائی علاقے آواتی کاؤنٹی، واپس آکر جنگلات اور میدانی علاقوں کے مقامی بیورو میں شامل ہو ئیں۔ 2021 میں، مقامی حکام نے تکلامکان کے شمال مغربی کنارے پر واقع علاقے ایکسیمان میں ریت پر قابو پانے کے منصوبے کا آغاز کیا اور یہی وہ وقت تھا جب ریت کے خلاف ،نورجمال کی جنگ کا آغاز ہو ا۔ کارکنوں کو پودے لگانے ، درست طریقے سے پانی دینے اور ہر پودے کی جڑ کو جنگلی جانوروں سے محفوظ رکھنے کے لیے تار کا جال لگانے کا طریقہ سکھایا ۔ دن ہو یا رات انہوں نے ان تھک محنت کی اور دس گھنٹے تک فیلڈ میں کام کیا۔

    یہ سب آسان نہیں تھا جب ریت کے طوفان آتے تو حد نظر نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ،یہاں تک کہ تازہ قدموں کے نشان بھی فوراً غائب ہو جاتے ہیں اور راستہ بھٹک جانا معمول بن گیا تھا ۔ لیکن نور کے لیے یہ حالات بھی سخت چیلنج یا پریشانی نہیں تھے ۔ ان کے لیے پریشانی ،ان بنجر زمینوں میں پودوں کے زندہ رہنے کا امکانات تھے جو حالات کے باعث بظاہر ناممکن لگتے تھے ۔ ان کارکنوں کو روزانہ ہی اپنی محنت ضائع جاتی محسوس ہوتی تھی ، ریت کا ایک زوردار طوفان جو چند منٹوں میں تازہ پودوں کو اکھاڑ سکتا ہے اس کے علاوہ شدید گرمی اور پانی کی کمی جو نازک پودوں کو ختم کر سکتی ہے۔ اکثر اوقات، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ بے مقصد ہے یہاں تک بھی ہوا کہ انہوں نے کئی مرتبہ اپنے قدم پیچھے ہٹا لینے کا بھی سوچا ۔ لیکن پھر بہار 2022 میں واقعی بہار آئی ۔ ایک دن نورجمال ، سکسول کی جھاڑیاں دیکھ رہی تھی جب اس نے شاخوں کے سروں پر پھوٹتا سبزہ دیکھا ، مطلب درخت زندہ تھے ، امید جاگی اور اس کی آنکھیں خوشی سے بھیگ گئیں۔ اسی محنت اور صبر کا پھل ہے کہ آج ، نہ صرف اس وسیع علاقے میں ساکسول اور تمرس کے درخت ہریالی بکھیر رہے ہیں بلکہ طویل عرصے سے غائب جنگلی جانور جیسے خرگوش، لومڑی اور تیتر بھی دوبارہ سے نظر آنے لگے ہیں۔

    جیسی مایوسی اور پریشانی سبزہ پھوٹنے سے پہلے نور جمال اور دیگر کارکنوں نے دیکھی اسی قسم کی مایوسی کا احساس کاشغر کے گاوں وینالی ٹائی کوشی کے لوگوں نے بھی کیا ۔ یہ گاؤں تین طرف سے صحرا میں گھرا ہوا تھا ، مقامی لوگوں نے یہاں شجرکاری کی کوشش کی لیکن خشک سالی کی وجہ سے وہ ناکام رہے،کپاس اور گندم کی فصل لگاتے تھے لیکن وہ سوکھ جاتی تھی اسی لیے بہت سے لوگوں نے بہتر زندگی کی تلاش میں اپنے گھر چھوڑ دیے۔

    2023 میں کاشغر کے جنگلات اور سبزہ زاروں کے بیورو کی جانب سے 55 سالہ دائی چی گانگ کو گاؤں کے سربراہ کے طور پر کام کرنے کے لیے بھیجا گیا، ان کا نعرہ تھا: "ہم اس صحرا پر قابو پائیں گے"! ۔ گاؤں والوں نے ٹاؤن شپ حکومت کی معاونت سے ، پانی کی کمی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ڈرپ آبپاشی کا نظام لاگو کیا۔ انہوں نے آزمائشی طور پر ساکسول کے درختوں اور روسی زیتون کی جھاڑیوں کی کاشت شروع ہوئی۔

    دائی چی گانگ نے مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ شروع میں تو گاؤں والے انہیں کدو کے سر والا کہتے تھے،( یہ ویغور زبان میں ایک ضدی، بے وقوف شخص کو کہا جاتا ہے)۔ان کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مہم بہت کٹھن تھی، ریت کے طوفان آتے تو رات کو جو زمین سیدھی ہموار ہوتی تھی صبح اس پر ریت کے نئے ٹیلے کھڑے ملتے اور اسی سبب کئی ننھے پودے اکھڑ جاتے تھے۔ پے درپے شکستوں کا سامنا کرنے کے بعد آخر کار ان کی ہمت جیت گئی اور پچھلے سال ریت کو قابو کرنے والے ان دختوں کے ایک جنگل نے کامیابی سے جڑ پکڑ لی۔

    اس کامیابی سے گاؤں والے بھی قائل ہوگئے اور وہ دائی چی کے ساتھ اسی جوش کے ساتھ شجرکاری جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں اور اپنی خوشی سے صحرا کے پھیلاو کی روک تھام اور اس پر قابو پانے والی ٹیم میں شامل ہو گئے ہیں۔ رواں سال موسم بہار تک، 160 ہیکٹر سے زیادہ صحرا کو دوبارہ سبز کیا جا چکا ہے۔

    ایک محاذ تو صحرا کے پھیلاو کی روک تھام اور اس پر قابو پانے کا ہے جب کہ ایک اور محاذ پر تحقیقاتی ادارے ہیں، جو صحراوں کے پھیلاو کے خلاف اپنی مہم چلا رہے ہیں ۔ یہاں بھی دائی چی اور نور جمال جیسے خود کو وقف کر دینے والے کارکن موجود ہیں ۔ ارال شہر کی مشہور تارم یونیورسٹی کی پروفیسر لی جی جن بھی ایسی ہی ایک بے لوث کارکن ہیں جنہیں ان کے ساتھی "صحرا کی چنار شہزادی" کہتے ہیں ۔

    گزشتہ 25 سالوں میں، لی جی جن نے تارم طاس کے مختلف مقامات پر جنگلی چنار ،جین پلاسما کے وسائل جمع کرنے کے لیے سفر کیا، اور پاپولس یوفریٹیکا کے جنگلات کے تحفظ اور بحالی کے حوالے سے کئی تحقیقات کی سربراہی کی ۔ 62 سالہ لی اور ان کی ٹیم ہر سال چھ ماہ سے زیادہ وقت فیلڈ سروے میں صرف کرتی ہےجو کہ آسان نہیں تھا کیونکہ گاڑیاں ریت میں دھنس جاتی تھیں تو وہ تمام تر بھاری سامان اٹھا کر کئی کئی کلومیٹر پیدل سفر کرتے تاکہ ان درختوں کے تحفظ اور فروغ کے لیے کی جانی والی کوششوں میں کوئی تعطل نہ آئے ۔ لی کا کہنا ہے کہ صحرا کے ان چناروں کی استقامت اور قوت نمو میرے اردوں میں ثابت قدم رہنے کی تحریک دیتی ہے۔

    ویڈیوز

    زبان