حال ہی میں اسرائیلی وزیر دفاع کاٹز نے غزہ کی پٹی میں لوگوں کی آبادیاتی کے نئے منصوبے کا اعلان کیا، جس کے مطابق مصر کے قریب جنوبی غزہ کے شہر رفح میں ایک نام نہاد 'انسانی شہر' کی تعمیر کی جائےگی تاکہ غزہ کی پوری آبادی کو اکٹھا کیا جا سکے۔ کاٹز کے مطابق، مقامی لوگوں کو داخل ہونے سے پہلے اسرائیلی فوج کی طرف سے "سیکیورٹی چیک" کا سامنا کرنا پڑے گا، اور "ایک بار اندر داخل ہونے کے بعد، انہیں باہر جانے کی اجازت نہیں ہو گی"۔ شہر کے اندر کے انتظام کی ذمہ داریاں بین الاقوامی ایجنسیاں سنبھالیں گی جبکہ اسرائیلی افواج اس کے احاطے میں فوجی کنٹرول کرے گی۔
جیسے ہی اسرائیل کے اس منصوبے کا اعلان کیا گیا، بیرونی دنیا نے اس کی مذمت کی۔ وسیع پیمانے پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس طرح کی آبادکاری جبری منتقلی کے مترادف ہے ، اور یہ کہ نام نہاد "انسانی شہر" ایک "حراستی کیمپ" کی طرح ہے۔ اقوام متحدہ کے ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے مشرق قریب (یو این آر ڈبلیو اے) نے کہا کہ اس طرح کی جگہ کو "انسانی شہر" قرار دینا انسانیت کی توہین ہے۔ انسانی حقوق کی ایک اسرائیلی تنظیم جیشا کا کہنا ہے کہ 'فلسطینیوں کو بڑے حراستی کیمپوں جیسی جگہوں پر مجبور کرنا تاریخ کے ایک سیاہ باب کی یاد دلاتا ہے۔ یونیورسٹی کالج لندن میں بین الاقوامی قانون کے پروفیسر رالف وائلڈر نے کہا کہ اسرائیل کے اقدامات بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔