
مشرقی چین کے صوبہ جہ جیانگ کے شہر جِن ہوا میں ایک دفتر کی عمارت کے نزدیک سامان سے لدا ہوا ڈرون اتر رہا ہے۔ (تصویر/فو جُن)
25نومبر(پیپلز ڈیلی آن لائن)حالیہ برسوں میں چین بھر میں کم بلندی والےلاجسٹکس، یعنی ڈرون کے ذریعے ترسیل کا استعمال مسلسل بڑھ رہا ہے اور یہ نظام اب روزمرہ زندگی کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔
شنگھائی کے ایک بزنس پارک میں دوپہر کے وقت ، مخصوص وصولی پوائنٹس کے اوپر متعدد ڈلیوری ڈرون منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں کام کرنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ انہوں نے تقریباً چار کلومیٹر دور سے چائے سےمنگوائی تھی جو کہ دس منٹ سے بھی کم وقت میں ان تک پہنچ گئی۔
ترسیل کی رفتار بڑھانے کے لیے شنگھائی نے ٹیکنالوجی پر مبنی ریٹیل کمپنی میتھوآن کے ساتھ مل کر ایک ایسا ماڈل تیار کیا ہے جو فوری ردِعمل اور درست مقام پر ایئر ڈارپ کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اس وقت تین ڈرون روٹس قریبی جامعات اور صنعتی پارکس کا احاطہ کرتے ہیں، جہاں تقریباً 15 منٹ کے اندر اندر ترسیل ممکن ہو گئی ہے۔
حال ہی میں مشرقی چین کے صوبے جیانگ سو میں سوجو انڈسٹریل پارک میں سیمی کنڈکٹر ٹیسٹنگ کے نمونوں کی ترسیل کے لیے مخصوص ڈرون روٹ پر پہلی آزمائشی پرواز کامیابی سے مکمل کی گئی۔ ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں نمونے براہِ راست کمپنی کی لیبارٹری تک پہنچا دیے گئے، جس سے تحقیق و ترقی کے دوران محدود وقت کے کڑے تقاضوں کو پورا کرنے میں کامیابی ملی ہے۔
صوبہ حوبے کی ٹاؤن شپ جیووانشی کے گاؤں گوئی یا میں ، پہاڑی باغات سے مالٹے منتقل کرنے کے لیے اب ڈرون استعمال کیے جا رہے ہیں۔ جہاں پہلے ایک ہزار کلو مالٹے پہاڑ پر سے نیچے لانے میں تین گھنٹے لگتے تھے، اب یہی کام صرف دس منٹ میں ہو جاتا ہے۔

3 جون 2025۔ صوبہ حوبے کے شہر شیانگ یانگ کے ایک ہسپتال میں طبی عملے کا ایک رکن ڈرون پر خون کے نمونے لوڈ کر رہا ہے۔ (تصویر/یانگ دونگ)
صوبہ گوانگ دونگ میں ایک کم بلندی والا کمرشل لاجسٹکس کوریڈور بھی قائم کیا گیا ہے جس سے شینزن اور جونگ شان فضائی رابطے سے آپس میں منسلک ہوئے ہیں ۔ صارف جب منی پروگرام کے ذریعے آرڈر دیتے ہیں تو چھوٹے اور فوری پارسل تقریباً تین گھنٹوں میں ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچ جاتے ہیں۔
گزشتہ ایک سال کے دوران شینزن-جونگ شان، شینزن-جوہائی اور شینزن-دونگ گوان جیسے مزید بین الشہری روٹس سامنے آئے ہیں، جن سے گوانگ دونگ-ہانگ کانگ-مکاؤ گریٹر بے ایریا میں کم بلندی والے لاجسٹکس کا نیٹ ورک تیزی سے وسیع ہو رہاہے۔ اس وقت صرف گریٹر بے ایریا میں ایس ایف ایکسپریس کی کارگو ڈرون کمپنی"فینکس وِنگز" کی روزانہ تقریباً ایک ہزار سے زیادہ پروازوں ہوتی ہیں اور بیس ہزار سے زائد پارسل منتقل کیے جاتے ہیں۔
چین میں یہ شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ یہ اب محدود آزمائشی روٹس سے نکل کر باہم منسلک نیٹ ورکس کی شکل اختیار کر رہا ہے اور مخصوص استعمال سے آگے بڑھ کر روزمرہ استعمال میں شامل ہو رہا ہے۔ پارسل ڈلیوری، زرعی اجناس کی ترسیل اور طبی سامان کی فراہمی سمیت مختلف میدانوں میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ صرف 2024 میں چین نے 140 سے زائد نئے کم بلندی والے لاجسٹک روٹس شروع کیے، جن میں سے تقریباً 90 فیصد ،شہروں کے اندر کام کر رہے ہیں۔

مشرقی چین کے صوبےجیانگ سو کے شہر جانگ جیاگانگ میں 30 کلوگرام وزنی پارسل کے ساتھ پرواز کرتا ڈرون ، دریائے یانگسی میں موجود پوسٹل سروس سٹیشن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ (تصویر/شنگ بن)
چائنیز سوسائٹی آف ایروناٹکس اینڈ ایسٹروناٹکس کے کم بلندی والی معیشت کے ماہر دونگ جی ای کے مطابق، چین کی کم بلندی والی لاجسٹکس صنعت کا بڑا حصہ گریٹر بے ایریا، دریائے یانگسی ڈیلٹا، بیجنگ-تھیانجن-حہ بے اور چھنگ دو-چھونگ چھنگ کے علاقوں میں ہے، جبکہ دیگر علاقوں میں یہ نظام زیادہ تر مخصوص ضروریات کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق گریٹر بے ایریا اور یانگسی ڈیلٹا معاشی طور پر مضبوط ہیں اور وہاں اس کے استعمال کے زیادہ مواقع ہیں، بیجنگ-تھیانجن-حہ بےمیں جدت کی صلاحیت نمایاں ہے، جبکہ چھنگ دو-چھونگ چھنگ کا علاقہ مینوفیکچرنگ اور فضائی وسائل سے فائدہ اٹھا کر تعاون اور وسائل کے مشترکہ استعمال کو فروغ دے رہا ہے۔
میتھوآن ڈرون سروس پبلک افیئرز کے سربراہ یان یان کا کہنا ہے کہ ای کامرس اور فوری لاجسٹکس کے بڑھتے ہوئے رجحان سے لوگوں میں زیادہ تیز اور انفرادی نوعیت کی سروسز کے حوالے سے طلب میں اضافہ ہوا ہے ، جس سے کم بلندی والی لاجسٹکس کے لیے مارکیٹ کے امکانات کھل رہے ہیں۔ ان کے مطابق ڈرون ڈیلیوری سڑکوں پر ٹریفک کے اثرات کم کر دیتی ہے، اور ایسی اشیا جنہیں کم وقت میں فوری طور پر پہنچانا ضروری ہوتا ہے، ان کی ترسیل میں روایتی زمینی ذرائع کے مقابلے میں ڈرونز کی کارکردگی دوگنا ہے ۔
رفتار کے علاوہ، ڈرون لاجسٹک لاگت کے لحاظ سے بھی فائدہ مند ثابت ہو رہے ہیں ۔ چین کی معروف ایکسپریس کمپنی زیڈ ٹی او نے ایک ڈرون تیار کیا ہے جس کی لائف ٹائم لاگت 85,800 یوآن ہے اور یہ 75,000 پارسل پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس حساب سے فی پارسل لاگت 1.14 یوآن بنتی ہے، جو صنعت میں فی پارسل اوسط 1.85 یوآن کے مقابلے میں لگ بھگ 40 فیصد کم ہے۔ زیڈ ٹی او ڈرون پراجیکٹ کے سربراہ وانگ چی کے مطابق جیسے جیسے آپریشنز کا پیمانہ اور مخصوص سروسز کا دائرہ کار بڑھے گا، لاگت میں مزید کمی آئے گی۔چائنا سٹیٹ پوسٹ بیورو کے ایک اہلکار کے مطابق ، ڈرون اور زمینی گاڑیوں کے باہمی تعاون سے ایسے سمارٹ ڈلیوری نیٹ ورک تیار کیے جا سکتے ہیں جو شہری اور دیہی دونوں علاقوں کو کور کریں ۔
چین کے کم بلندی والے لاجسٹکس کی ترقیاتی رپورٹ 2024 کے مطابق اس شعبے کی مارکیٹ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اندازہ ہے کہ اس سال مارکیٹ کا حجم 120 سے 150 ارب یوآن تک پہنچ جائے گا، جبکہ 2035 تک یہ 450 سے 605 ارب یوآن تک ہوسکتا ہے۔



