12نومبر(پیپلز ڈیلی آن لائن)76 سالہ چینی کوہ پیما شیا بو یو ،عزم وحوصلے کی ایک جیتی جاگتی مثال ہیں ۔دونوں پیروں سے معذور ، خون جمنےجیسے جان لیوا مرض اور لمفوما کینسر کی آخری سٹیج پر اس مرض کو شکست دینے والے شیابویو دوہری معذوری کے شکار پہلےچینی ہیں جنہوں نے چومولانگما کی چوٹی کو سر کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اکثر لوگ ان سے یہ سوال کرتے تھے کہ اس عمر میں اور دونوں پاؤں کھونے کے بعد بھی وہ چومولانگما پہاڑ کو سر کرنے کے حوالے سے اتناپرعزم کیوں ہے؟ اور ان کا سادہ سا جواب ہوتا تھا کہ مجھے پہاڑوں پر چڑھنے کا شوق ہے اور چومولانگما سمٹ نے میری زندگی کا رخ بدل دیا ہے۔

بارش کے دوران سائیکل کی سواری کرتے ہوئے 76 سالہ چینی کوہ پیما شیا بویو ۔ (تصویر CNR.CN)
دنیا کی سب سے بلند چوٹی چومولانگما جسے دنیا ماونٹ ایورسٹ کے نام سے بھی جانتی ہے، اس کوکامیابی کے ساتھ سر کرنے سے پہلے ،شیا بو یو نے چار بار اس پر چڑھنے کی کوشش کی تھی ، بار بار خطروں کا سامنا کرتے ہوئے اور موت کے منہ میں جانے سے بال بال بچتے ہوئے آخرکار14 مئی 2018 کو ، 69 سال کی عمر میں انہوں نے اس چوٹی کو سر کرنے کا دیرینہ خواب پورا کر لیا۔ انہوں نے ماونٹ چومولانگما کو سر کرنے والے اس وقت کے سب سے معمر چینی کوہ پیما ہونے کا ریکارڈ توڑنے کے ساتھ ساتھ ، دونوں پیروں سے محروم پہلے چینی کوہ پیما ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
" جب تک میں زندہ ہوں، میں ہر روز اپنے خوابوں کے لیے لڑوں گا"
اس تجربہ کار کوہ پیما کی زندگی غیر معمولی ہمت و حوصلے کی ایک داستان ہے۔
نوجوان شیا بویو ،فٹ بال کے ایک عمدہ کھلاڑی تھے۔ 1975 میں جب وہ 26 سال کے تھے تو انہوں نے ماونٹ چومولانگما کی بلندی ماپنے اور سائنسی تحقیق کے لیے تشکیل دی گئی ایک قومی مہم میں شمولیت اختیار کی ۔ جب یہ ٹیم 8,600 میٹر کی بلندی پر پہنچی تو ایک شدید طوفان نے انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔اس دوران نیچے اترتے وقت، شیا بویو نے اپنا سلیپنگ بیگ اپنے ایک ساتھی کوہ پیما کو دے دیا لیکن اس بے لوث عمل کے نتیجے میں فراسٹ بائٹ کی وجہ سے وہ گھٹنوں تک اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہوگئے۔
اس حادثے کا ذکر کرتے ہوئے شیا کہتے ہیں کہ وہ ایک تاریک دور تھا اور انہوں یوں محسوس ہوتا تھاکہ جیسے انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد اور سمت کھو دی ہے۔لیکن ان کی امید چھ ماہ بعد اس وقت ایک مرتبہ پھر جاگی جب ، ایک مصنوعی اعضا کے ماہر نے انہیں یقین دلایا کہ ان کے خواب بکھرے نہیں ہیں وہ اب بھی پہاڑوں پر چڑھ سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان الفاظ نے اپنے خوابوں کو جینے کی خواہش دوبارہ زندہ کردی اور ماونٹ چومولانگما کی چوٹی تک پہنچنا اس کا سب سے بڑا خواب بن گیا۔
مصنوعی اعضا لگے تو اپنی کھوئی ہوئی طاقت بحال کرنے کے لیے، شیا نے سخت ورزش کا آغاز کیا اس میں صبح سویرے معمول کی ورزش کے ساتھ ساتھ 10 کلو گرام ریت کے تھیلے اٹھا کر سکواٹس کرنا ، 18 کلومیٹر سائیکل چلانااور بیجنگ کے شیانگشان پارک میں پہاڑ پر چڑھنا ان کا روزانہ کا معمول بن گیا۔ لیکن بدقسمتی سے اس انتہائی سخت معمول کے باعث ، ان کے زخم متاثر ہوئے اور یہ کینسر میں تبدیل ہو کر لمفییٹک میٹاسٹاسیس کا باعث بنے۔لیکن ان مشکلات نے ان کے عزم کو مزید پختہ کیا اور انہوں نے اپنے دل میں یہ ارادہ کر لیا کہ جب تک وہ زندہ ہیں وہ ہر روز اپنے خوابوں کے لیے لڑیں گے۔ انہوں نے اپنے اندر یہ یقین جگایا کہ پیروں کے بغیر بھی وہ کسی سے کم نہیں ہیں، پھر خود کو ثابت کرنے اور قسمت کو چیلنج کرنے کے لیے انہوں نے چومولانگما سمٹ کا تہیہ کر لیا۔
خواب ، جو 69برس کی عمر میں حقیقت بن گیا
2014 سے 2016 تک، شیا بویو نے چومولانگما کو سر کرنے کے لیے تین مزید کوششیں کیں، لیکن ہر مہم شدید قدرتی آفات کی وجہ سے ناکام رہیں: 2014 میں ایک بڑے برفانی تودے نے مہم کو روک دیا جب کہ 2015 میں نیپال میں 8.1 شدت کے ہولناک زلزلے نے انہیں مہم ادھوری چھوڑ کر واپس پلٹنے پر مجبور کیا جب کہ 2016 میں جب وہ چوٹی سے محض 94 میٹر دور تھے،انتہائی شدید جان لیوا ہواوں نے ان کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔

چینی کوہ پیما شیا بویو ، اپنی مصنوعی ٹانگوں کے ساتھ ماونٹ چومولانگما پر چڑھ رہے ہیں۔ (تصویر CNR.CN)
شیابویو اس صورتِ حال کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ پہاڑ کی چوٹی سے محض 94 میٹر کی دوری پر تھے جب اچانک انتہائی بلندی پر چلنے والی شدید ہواں نے حد نگاہ کو صرف ایک میٹر تک محدود کردیا۔ قدموں کے نیچے بمشکل 20 سینٹی میٹر چوڑا راستہ تھا اور دونوں طرف عمودی چٹانیں تھیں۔ 67 سال کی عمر میں وہ اپنے سب سے بڑے خواب کو حقیقت میں بدلنے سے محض چند میٹر دور تھے لیکن نامساعد حالات نے پیچھے ہٹنے کا تکلیف دہ فیصلہ کرنے پر مجبور کردیا۔ اگرچہ ان کے دل میں یہ خدشہ بھی تھا کہ یہ ان کا اس پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے کا آخری موقع بھی ہو سکتا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ساتھ نوجوان گائیڈ ز کی زندگیوں کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے ۔ شیا بویو کہتے ہیں کہ چوٹی کو اتنا قریب دیکھ کر، میں نے سوچا کہ یہ 10 ملین سال سے زیادہ عرصے سے وہاں موجود ہے، میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ جب تک میں زندہ ہوں، میں یہاں واپس آؤں گا۔
شیا بویو کا خود سے کیا گیا یہ وعدہ 14 مئی 2018 کی صبح 8:31 پر پورا ہوا۔8,848 میٹر کی بلندی پر، پس منظر میں گونجتے سرد ہواؤں کے شور میں ، شیا کے انٹرکام کے ذریعے ان کی آواز سنائی دی : "اس سفر میں 40 سے زیادہ سال لگے ! یہ آسان نہیں تھا،اور آخر کار میں یہاں پہنچ گیا۔"
ان لمحات کا ذکر کرتے ہوئے شیا کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سوچتے تھے کہ جب وہ واقعی چوٹی پر پہنچ جائیں گے تو کیا کریں گے ، کیا کوئی نعرہ لگائیں گے یا یا کیمرے کے لیے ایک پوز دیں گے؟ لیکن جب وہ لمحہ آیا تو وہ اتنے پرجوش نہیں تھے جتنا کہ وہ سوچا کرتے تھے؛ انہوں نے خود کو حیرت انگیز طور پر پرسکون محسوس کیا اور یہ سکون اس لمحے تک برقرار رہا جب تک کہ انہوں نے سیٹلائٹ فون پر اپنے خاندان سے بات کی۔
اشکبار آنکھوں کے ساتھ انہوں نے فون پر اپنی بیوی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کی حوصلی افزائی اور تعاون کے بغیر وہ کبھی بھی یہ نہیں کر سکتے تھے ۔
اگلے ہی سال، شیا نے یاؤ منگ، لیو شیانگ اور لی نا کے بعد چوتھے چینی فرد کے طور پر منا کو میں لوریئوس سپورٹنگ مومنٹ آف دی ایئر کا ایوارڈ حاصل کیا۔
بوڑھا ہونے کے باوجود بھی آپ اپنے خوابوں کو اس وقت تک حقیقت میں بدل سکتے ہیں جب تک آپ مستقل مزاجی سے محنت کرتے رہتے ہیں۔
76 سال کی عمر میں بھی شیا بو یو کا کوہ پیمائی کا جذبہ جوان اور توانا ہے۔ ان کا اگلا ہدف "2+7 چیلنج" مکمل کرنا ہے یعنی ہر براعظم کی سب سے اونچی چوٹی کو سر کرنا اور شمالی اور جنوبی قطبین تک پہنچنا۔
شیا بو یو اب تک یورپ میں ماؤنٹ ایلبرس، جنوبی امریکامیں ایکن کاگووا، افریقا میں کِیلی منجارو کو سر کر چکے ہیں اور انہوں نے قطب شمالی کا بھی دورہ کیا ہے
شیابو یو کہتے ہیں کہ اس عمر میں، خوابوں کا پیچھا کرنا اپنے آپ کو ثابت کرنے کے لیے نہیں بلکہ نئے مناظر کا تجربہ کرنے اور سفر سے ملنے والی سرخوشی حاصل کرنے کے لیے ہے ۔

چینی کوہ پیما شیا بو یو ، معمر افراد کے اعزاز میں منعقدہ ایک ثقافتی تقریب میں حاضرین سے خطاب کر رہے ہیں۔) تصویر (CNR.CN
اپنے تجربات دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہوئے ، وہ یہ امید کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کو ان کے خوابوں کو حاصل کرنے کے لیے تحریک دیں گے ۔ وہ انہیں دوبارہ اٹھنے کی ہمت دینے اور اپنے اندر کی طاقت کو دریافت کرنے میں ان کی مدد کریں گے ۔
شیا کا ماننا ہے کہ چاندی کے بالوں والی ان کی نسل کی اندرونی طاقت بہت منفرد اور نوجوانوں سے مختلف ہے یہ طاقت سالوں کے تجربے سے تشکیل پائی ہے جو پختہ عزم و ارادے ، پرسکون اور متوازن ذہن، نیز حکمت و فیصلہ سازی کی عکاس ہے۔
شیابو یو کا کہنا ہے کہ جب تک وہ پہاڑوں پر چڑھ سکتے ہیں وہ چڑھتے رہیں گے ۔ان کی رائے میں اپنے خوابوں کو حاصل کرنے میں مستقل مزاجی سب سے اہم ہے اور سب سے مشکل بھی ۔ جب تک آپ مستقل مزاج رہیں گے، بوڑھے ہونے کے باوجود بھی آپ اپنے خوابوں کو حاصل کر سکتے ہیں۔



