تحریر: سید حنان گیلانی

14نومبر(پیپلز ڈیلی آن لائن)صوبہ یوننان کے شہر چھوجنگ کی ڈسٹرکٹ مالونگ کی ڈھلوانوں پر، آہستہ آہتہ گھومتی چمکیلی سفید پون چکیاں ، اس بلند پہاڑی علاقے کی ہواؤں کو صاف بجلی میں تبدیل کر رہی ہیں۔ یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر جوگہ نانشان ونڈ پاور سیینک پلیٹ فارم ہے جہاں پر سیاحوں کی آمدو رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس خوبصورت علاقے میں ایک ترتیب سے ایستادہ ان پون چکیوں نے یہاں کی خوبصورتی کو بڑھا کر اسے سیاحوں میں بے حد مقبول کر دیا ہے۔

کچھ عرصہ قبل، میں تحقیق کے لیے چھوجنگ گیا تھا۔ یہاں پر سبز تبدیلی نے مقامی ترقی کو جو توانائی دی ہے، اس نے میرے ذہن پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ یوننان کے بڑے ،صاف اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں میں سے ایک ، تھونگ چھوان ونڈ فارم نے فعال ہونے کے بعد سے تقریباً 1.7 ارب کلو واٹ گھنٹے بجلی پیدا کی ہے جس سے 450,000 ٹن سے زیادہ معیاری کوئلے کی بچت ہوئی جب کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 1.26 ملین ٹن سے زیادہ کی کمی ہوئی ہے۔ یہ علاقہ ایک پائیدار ترقیاتی ماڈل پر بھی کام کر رہا ہے جو نئی توانائی کے ذرائع کی ترقی کو سیاحت کے ساتھ مربوط کرتا ہے اور آس پاس کے رہائشیوں کو اقتصادی فوائد مہیا کرتا ہے۔
میرےوطن، پاکستان میں بھی توانائی کے شعبے میں غیر محسوس انداز میں اس سے ملتی جلتی تبدیلی ہو رہی ہے۔ پچھلے دو سالوں میں کھیتوں اور فارمز سے لے کر شہر میں موجود کارخانوں اور گھروں کی چھتوں تک، فوٹو وولٹک سولر پینلز تیزی سے پھیل گئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں پاکستان نے 16 گیگاواٹ سے زائد سولر پینلز درآمد کیے، جو کہ 2023 کے کل کا دوگنا ہیں۔ اس سال کی پہلی تین سہ ماہیوں میں ہی سولر پینلز کی درآمدات 12.7 گیگاواٹ تک پہنچ چکی ہیں۔
صاف اور قابل تجدید توانائی میں پاکستان کی پیش رفت چین کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھی ۔ دنیا میں کلین ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا برآمد کنندہ چین، دنیا کے 80 فیصد سے زیادہ سولر ماڈیولز اور 70 فیصد ونڈ پاور آلات فراہم کرتا ہے۔گزشتہ دہائی میں، چین نے ونڈ اور سولر پاور کی اوسط عالمی لاگت کو بالترتیب 60 فیصد اور 80 فیصد سے زیادہ کم کرنے میں مدد دی ہےاور عالمی سبز ترقی کو تقویت دی۔ پاکستان طویل عرصے سےمہنگی بجلی ، بجلی کی کمی اور بار بار ہونے والی لوڈشیڈنگ جیسے مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ جیسے جیسے چینی سولر پینلز سستے ہوتے جا رہے ہیں، ویسے ویسے متعدد پاکستانی گھرانے اور کاروبار اس صاف اور قابل تجدید توانائی کے اقتصادی فوائد سے مستقید ہو رہے ہیں۔لاہور، جو کہ پاکستان کا ایک بڑا صنعتی شہر ہے، یہاں بہت سی فیکٹریز نے سولر پاور سٹیشن قائم کیے ہیں، جبکہ کئی سکول، ہسپتال اور شاپنگ مالز بھی سولر توانائی کو اپنا رہے ہیں۔ پنجاب اور سندھ کے دیہی علاقوں میں کسانوں نے ڈیزل جنریٹرز کی جگہ سولر پاور ٹیو ب ویلز لگائے ہیں، جس سے آبپاشی کے اخراجات میں نمایاں کمی آئی ہے۔ یہ تبدیلیاں نہ صرف روزمرہ اخراجات کم کرتی ہیں اور معیار زندگی بہتر بناتی ہیں، بلکہ پورے پاکستان میں روزگار کے مزید مواقع بھی پیدا کرتی ہیں۔
چین کی بین الاقوامی ماحولیاتی تعاون سے وابستگی پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ شمسی توانائی، ہوا کی طاقت اور صاف توانائی کے دیگر حل پیش کرنے اور انہیں فروغ دے کر، چین نے ترقی پذیر ممالک کو مستحکم اور سستی توانائی تک رسائی میں مدد دی ہے، جس سے ان کا فوسل ایندھن پر انحصار کم ہوا ہے۔ یہ ترقی خاص طور پر سورج کی وافر روشنی سے مالا مال مشرق وسطیٰ اور افریقا میں نمایاں ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ چینی صنعتکاری اور چینی ٹیکنالوجی نے اب پہلے سے زیادہ ممالک کو صاف، قابل تجدید توانائی استعمال کرنے کے قابل بنا دیا ہے۔ جیسا کہ پاکستان کے ایک توانائی و ماحولیات کے تھنک ٹینک کی رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے کہ چین ،گلوبل ساوتھ کے لیے تیز، غیر جانبدار اور گہری تبدیلی لانے والے توانائی کے ایک نئے مثالی اور انقلابی نمونے کا معمار ہے ۔
سبز اور کم کاربن ترقی کا عالمی رجحان ،چین اور پاکستان کے درمیان متعدد عملی تعاون کے منصوبوں میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ صاف توانائی میں تعاون سے معیارِ زندگی میں بہتری، توانائی کی بچت، اخراج میں کمی اور طویل مدتی پائیدار ترقی کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ چین کے پاس سبز ترقی کا ایک واضح منصوبہ ہے اور اس کے پاس جدید صنعتی و تکنیکی صلاحیتیں موجود ہیں۔ پاکستان کے پاس ایک وسیع مارکیٹ اور مضبوط ترقی کی صلاحیت ہے۔ مجھے امید ہے کہ دونوں ممالک متعلقہ شعبوں میں تعاون کو گہرا کریں گے، ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے مستفید ہوں گے، اور باہمی جیت پر مبنی نتائج حاصل کریں گے۔
چھوجنگ کی پہاڑیوں پر گھومتی ونڈ ٹربائنز سے لے کر لیکر لاہور کی چھتوں پر جھلملاتے سولر پینلز تک، سبز ترقی چین میں ہزاروں گھرانوں کے لیے فائدہ مند ہے اور پاکستان میں بے شمار لوگوں کی زندگیوں کو بدل رہی ہے۔



