16اکتوبر (پیپلز ڈیلی آن لائن)14اکتوبر کو بیجنگ میں چین کی نیشنل فوڈ اینڈ سٹریٹیجک ریزرو ایڈمنسٹریشن کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس میں ، ایڈمنسٹریشن کے سربراہ لیو حوان شن نے 14ویں پانچ سالہ منصوبے (2021-2025) کے دوران ملک میں خوارک کی فراہمی اور خوراک کے مستحکم مارکیٹ آپریشنز کے بارے میں اعدادو شمار پیش کیے۔
فراہم کردہ اعدادو شمار کے مطابق، چین کی اناج کی سالانہ پیداوار پچھلے پانچ سالوں میں مسلسل 650 ملین ٹن سے اوپر رہی ہے۔ 2024 میں، اناج کی پیداوار پہلی بار 700 ملین ٹن سے تجاوز کر گئی اور اناج کی فی کس ملکیت 500 کلوگرام رہی، جو خوارک کے تحفظ کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حد 400 کلوگرام فی کس سے زیادہ ہے۔
لیو حوان شن نے کہا خوارک کے تحفظ اور اناج میں بنیادی خود کفالت کا حصول چین کی بڑی کامیابیاں ہیں جو کہ ،چین کی زرعی زمین کا کل رقبہ 1.8 بلین مو (120 ملین ہیکٹر) کی سرخ لکیر سے نیچے نہ جانے دینے، اعلیٰ معیار کی زرعی زمینیں تشکیل دینےاور جدید زرعی ٹیکنالوجیز کو اپنانے جیسی پالیسیز پر ثابت قدمی سے عمل درآمد کرنےکا نتیجہ ہیں۔انہوں نے نشاندہی کی کہ دنیا کی قابل کاشت زمین کےصرف نو فیصد اور تازہ پانی کے وسائل کے محض چھ فیصد وسائل کاحامل چین ، دنیا کی آبادی کے پانچویں حصے کو خوراک فراہم کر رہا ہے جو کہ بذاتِ خود خوراک کے عالمی تحفظ میں ایک بڑی شراکت ہے۔
چین کی وزارت زراعت و دیہی امور کے مطابق، اس وقت چین میں 66.7 ملین ہیکٹر اعلیٰ معیار کی زرعی زمین تیار کی جا چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، زرعی پیداوار میں مشینری کی شرح 75 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے، جو کہ 10 سال پہلے کی سطح سے 13 فیصد ی پوائنٹس زیادہ ہے۔
نیشنل فوڈ اینڈ سٹریٹیجک ریزرو ایڈمنسٹریشن کے نائب سربراہ قیان یی نے بتایا کہ نئی ٹیکنالوجیز نے چین کی فوڈ سپلائی چین کی اعلیٰ معیار کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور چین اب ان ممالک میں شامل ہے جن کے پاس اناج ذخیرہ کرنے کی سب سے جدید ٹیکنالوجیز ہیں۔
چین نے ، خوراک اور زراعت میں بین الاقوامی تعاون کو گہرا کرنے ،خوراک کی عالمی صنعت کو آگے بڑھانے اور دنیا بھر میں غذائی تحفظ کی کے لیے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین نے افریقی ممالک سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں زرعی تجربات کے تبادلے، مشترکہ تحقیق و تربیتی پروگرامزاور گلوبل فوڈ گورننس میں فعال شرکت کے ذریعے اپنی مہارت اور صلاحیتوں کا اشتراک کیا ہے۔
چین اور افریقا کے درمیان تعاون کو گہرا کرنے کے لیے گزشتہ سال چین کی جانب سے اعلان کردہ 10 شراکت داری اقدامات میں زراعت ایک نمایاں پہلو ہے۔زراعت اور ذرائع معاش کے لیے شراکت داری کے اقدام کے تحت، چین نے گزشتہ سال افریقا کو خوراک کی ہنگامی امداد کے طور پر 1 ارب یوان (تقریباً 141 ملین امریکی ڈالر) فراہم کرنے ،100,000 مو کی معیاری زرعی نمائشی زمینیں تیار کرنے، 500 زرعی ماہرین بھیجنےاور چائنا-افریقا ایگریکلچر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی انوویشن الائنس قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ گزشتہ ماہ کیپ ٹاؤن میں ہونے والی جی20 کے زرعی وزرا کی میٹنگ کے دوران بھی چینی حکومت نے فریقین پر زور دیا کہ وہ ترقی پذیر ممالک کے لیے مالی، تکنیکی اور مارکیٹ تعاون بڑھائیں، ہائی ٹیک کے تبادلے پر پابندیاں کم کریں، اور زرعی صنعت میں ڈیجیٹلائزڈ اور اسمارٹ ترقی کو فروغ دیں۔
عالمی یوم خوراک جو ہر سال 16 اکتوبر کو منایا جاتا ہے، اس کے ذریعے عالمی طور پر خوراک کی غیر یقینی صورتحال اور غذائی قلت کے بارے میں آگاہی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے اعداد و شمار کے مطابق، دنیا میں اب بھی 673 ملین افراد بھوک کا شکار ہیں، جبکہ 2.3 ارب افراد خوراک کی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ حال ہی میں روم میں، بھوک سے لڑنے اور ایگری فوڈ سسٹم کو تبدیل کرنے کے بین الاقوامی تعاون کی آٹھ دہائیوں کی مناسبت سے ایک نمائش منعقد ہوئی، FAO کی پودوں کی پیداوار اور حفاظتی ڈویژن کی نائب ڈائریکٹر چیکیلُو ایمبا نے کہا کہ زرعی جدت تک ہر ایک کی رسائی کوممکن بنانے کے لیے مضبوط عالمی شراکت داری کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ صرف 40 سال قبل، چین خوراک کی غیر یقینی صورتحال اور غذائی قلت کا شکار تھا۔ چین کی لاکھوں لوگوں کو غربت اور بھوک سے نکالنے کی کامیابی ، ایک قابلِ تقلید مثال ہے جسے جنوب-جنوب اور مثلثی تعاون کے ذریعے دوبارہ اپنایا جا سکتا ہے۔